rki.news
ایک مدت سے میں مسکرائی نہیں
میری خوشیوں سے جب دل رُبائی نہیں
اس لئے ان کو شک ہے کہ ناراض ہوں
کوئی شکوہ زباں پر ، میں لائی نہیں
تو جو چاہے تو کر لے جدا اپنی راہ
میں نے کچھ قید تجھ پر ، لگائی نہیں
شادمانی ، مسرت کے لکھتی ہوں گیت
گرچہ خوشیوں سے کچھ آشنائی نہیں
پیار مجھ سے بھی ، الفت ہے اوروں سے بھی
کیا کہوں ، یہ اگر بے وفائی نہیں؟
مال ، راہِ خدا میں لٹاتی رہی
پھوٹی کوڑی بھی گھر میں بچائی نہیں
جس میں ظالم کو من مانیوں کی ہو چھوٹ
مجھ کو منظور ، ایسی خدائی نہیں
میں تھی ، بال اپنے جوڑے میں باندھے ہوئے
پھر بھی سر کش ہوَا ، باز آئی نہیں
جانے کب سے ہے ، دنیا مری منتظر
ایسی دنیا ، جو میں نے بسائی نہیں
تو ہے تمثیلہ ! خوش ظرف خاموش سی
آہ و زاری نہیں ، لب کشائی نہیں
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply