rki.news
نوشاد اشہر
اندھیرا اور اجالا کچھ نہیں ہے
تو کیا اب روز و شب کا کچھ نہیں ہے
یہاں پر تیرا میرا کچھ نہیں ہے
اگر سوچو تو جھگڑا کچھ نہیں ہے
سمجھتے کیوں نہیں تم بات میری
بنا خط کے لفافہ کچھ نہیں ہے
کتابِ وصل پوری پڑھ چکا ہوں
سوائے ہجر لکھا کچھ نہیں ہے
ترے ہونے سے ہے رنگِ تخیل
مرا ہونا نہ ہونا کچھ نہیں ہے
سوائے چند مرتے قہقہوں کے
پسِ دیوارِ گریہ کچھ نہیں ہے
زمانہ ہے برا گر مان بھی لوں
کہوں کیوں کر کہ اچھا کچھ نہیں ہے
تری نظروں میں ہو گی قیمتی شی
مری نظروں میں دنیا کچھ نہیں ہے
جنونِ شوق ہی حد سے نہ گزرے
تو کارِ دشت و صحرا کچھ نہیں ہے
نہ ہو یوسف اگر معشوق اشہر
تو پھر عشقِ زلیخا کچھ نہیں ہے
نوشاد اشہر اعظمی
بلریا گنج اعظم گڑھ
Leave a Reply