جب طبیعت مری مائل بہ سخن ہوتی ہے
پھر غزل میری بہت مست مگن ہوتی ہے
اس کی انمول ہوا کرتی ہے قیمت صاحب
جب کسی چیز کی ہر وقت جتن ہوتی ہے
تب معانی و مفاہیم کی ہوتی ہے پرکھ
جب غزل پیش سر بزم سخن ہوتی ہے
اج کے بچے تو تلوار لئے پھرتے ہیں
جانے کیوں ان کو کھلونوں سے گھٹن ہوتی ہے
درمیاں چاند ستاروں کے چھپی ہے وہ کہیں
اس کی یادوں سے مرے دل میں چبھن ہوتی ہے
شمع حکمت سے ضیاء بار ہے سینہ میرا
فکر جیسے کوئی سورج کی کرن ہوتی ہے
نیند میں خواب تو ہوتے ہیں سہانے لیکن
آنکھ کھلتی ہے تو صدیوں کی تھکن ہوتی ہے
جس کی خوشبو سے معطر ہے مرا گھر آنگن
وہ کوئی بیٹی یا ننھیں سی بہن ہوتی ہے
جوکسی اور کی معصوم سی بیٹی ہے وہی
کل کسی اور کی منصور دلھن ہوتی ہے
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply