rki.news
طرب افزا,نگاہِ شوق کے قابل سمجھتے ہیں.
ترے کنجِ دہن کو ہم مہِ کامل سمجتے ہیں.
کہاں لے آئی ہم کو ہائے تیرے فکر کی دنیا.
کوئی محفل ہو ہم اس کو تری محفل سمجھتے ہیں.
زباں کھولوں تو اُڑ جائیں گے اُن کےہوش کے طائر.
مری خاموشیوں سے جو مجھے بز-دل سمجھتے ہیں.
وہ کیسے کر سکیں گے کام کوئی پائیدار آخر.
جو کسبِ غیر مستحکم کو بھی مشکل سمجھتے ہیں.
فراہم جو کراتا ہے دوا فربہ دلالی پر.
ہم ایسے چارہ گر کو ہم سرِ قاتل سمجھتے ہیں.
میں کب کے سی چکا زخمِ تمنّا قلبِ مضطر کے.
مگر وہ اب بھی مجھکو طائرِ بسمل سمجھتے ہیں.
لگا کر ٹھوکریں ان پر ہی بہلا لیتے ہیں دل کو.
وہ سنگِ رہ گزر کو بھی ہمارا دل سمجھتے ہیں.
ذلالت کا انھیں منھ دیکھنا پڑتا ہی ہے اک دن.
امیر شہر کے چمچوں کو جو فاضل سمجھتے ہیں.
جو خود ہیں صادق الوعدہ سمجھتے ہیں ہمیں صادق.
جو خود باطل ہیں بس وہ ہی ہمیں باطل سمجھتے ہیں.
وہ بھٹکا کر ہمیں راہوں میں خوش ہیں تو رہیں لیکن.
فراز اب بھی انھیں ہم رہبرِ منزل سمجھتے ہیں.
سرفراز حسین فراز پیپل سانہ مرادآباد یو.پی.
Leave a Reply