ایک اک بات پہ وہ حشر اٹھانا دل کا
تو نے دیکھا ہی نہیں یار زمانہ دل کا
کام آیا نہ مرے راز چھپانا دل کا
کہہ دیا آنکھوں نے محفل میں فسانہ دل کا
سنتا رہتا ہوں خموشی سے بھلا لگتا ہے
دشتِ تنہائی میں یوں شور مچانا دل کا
لوٹ کر جانے ہی دیتا نہیں گھر کی جانب
اسپِ سرکش کی طرح بس میں نہ آنا دل کا
ڈر ہی جاتا میں مصائب سے مگر کام آیا
حوصلہ راہ میں ہر گام بڑھانا دل کا
وقت نے گو کہ بدل ڈالے خد و خال مگر
آج بھی ہے وہی انداز پرانا دل کا
آئینہ ذات کا جب ٹوٹ کے بکھرا سمجھے
کیوں برا ہوتا ہے پتھر سے لگانا دل کا
کوئی دشوار نہ تھا میرے لئے اٹھ جانا
بس کہ دشوار تھا محفل سے اٹھانا دل کا
کوئی پوچھے تو یہی کہتا ہوں سب سے اشہر
شاخِ امکان پہ رہتا ہے ٹھکانہ دل کا
نوشاد اشہر اعظمی
بلریا گنج اعظم گڑھ
Leave a Reply