اُس کو مِلتا نہیں کچھ مِری مات سے
بس وہ مجبور ہے اپنی عادات سے
گِرنے والا تھا ویسے بھی میرا مکاں
کوٸی شکوہ نہیں مجھ کو برسات سے
جان و دِل سے جسے میں نے چاہا سدا
کھیلتا ہے وہ اب میرے جذبات سے
تنگ تھے مجھ سے اپنے سبھی اِس لیے
شہر میں آ گیا ہوں میں دیہات سے
مجھ سے سرزد ہُوئی تو نہیں ہے خطا
ہو گیا ہے خفا جانے کِس بات سے
بڑھ گئیں اور بھی دِل کی بیتابیاں
کیا مِلا دو گھڑی کی ملاقات سے
ان غریبوں کی بستی کا مت پوچھیے
تنگ ہے ہر کوئی اپنے حالات سے
تیری یادوں نے غم سے نکالا ہے یوں
جیسے دِن کو نکالا گیا رات سے
ہار کر بھی ہوں ذُلفی میں جیتا ہُوا
جنگ درپیش تھی اپنی ہی ذات سے
شاعر ذوالفقار علی ذُلفی
( پنڈ دادنخان جہلم )
Leave a Reply