تم کو دیکھا تو ہمارے زخم تازہ ہو گئے
مُندمل ہونے سے پہلے زخم تازہ ہو گئے
وہ بھی دن تھے دیکھ کر تارے خوشی ملتی ہمیں
اب جو روشن دیکھے تارے زخم تازہ ہو گئے
یاد ہے وہ دن مجھے تم نے سنوارا تھا کبھی
اپنے گیسو خود سنوارے زخم تازہ ہو گئے
شاعری مدت سے یوں تو چھوڑ رکھی تھی مگر
لکھ رہی ہوں گیت پیارے زخم تازہ ہو گئے
آج بھی موجود ہیں ظالم یہاں کل کی طرح
آج بھی عشاق ہارے زخم تازہ ہو گئے
وہ بڑھاپے کو جو پہنچے تو پسر کے جیتے جی
اور بنتے تھے سہارے زخم تازہ ہو گئے
ہم نے تمثیلہ کا دیکھا جب جھلستا آشیاں
ہر طرف پائے شرارے زخم تازہ ہو گئے
Leave a Reply