روشنی ڈھونڈنے آئی ہے تہِ آب مجھے
اب کہیں اور چھپائے گا یہ تالاب مجھے
عمر بھر اس کی رفاقت سے بہت دور رہی
عشق کے آتے نہیں ٹھیک سے اداب مجھے
جانِ جاں وقت نکلتا ہے تو آ پاس مرے
کیا کروں میں کہ ستاتے ہیں ترے خواب مجھے
اب ترا ہجر چبائے گا کلیجہ یہ مرا
اب مرے دوست سمجھتے ہیں شفایاب مجھے
سانپ بن کر مجھے ڈستے ہیں تری یاد کے پل
نام لے کر ترا ملتے ہیں جب احباب مجھے
رات بھر میں کے تھکن اوڑ کے سوتی ہوں فقط
دیکھتے رہتے ہیں تھک ہار کے اعصاب مجھے
مجھ کو تمثیلہ جدائی نے یوں گھیرا ہے یہاں
اب دکھائی نہیں دیتا ہے کوئی باب مجھے
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply