یہ دیکھ تو کیسے کٹ رہی ہے مری حیاتی اے میرے سائیاں
تو کردے کم اب مرا یہ غم ، وہ بھی کائناتی اے میرے سائیاں
دھواں دھواں ہے یہ آنکھ میری،لہو لہو میرے پاﺅں بھی ہیں
ہے شام ہجر اب تو روز ہی غم کی لو بڑھاتی اے میرے سائیاں
.یہ اجلے چہرے، یہ من ہیں کالے، یہ کیسے کیسے ہیں روپ دھار ے
عجیب تاریکی ان کے من میں ہے جگمگاتی اے میرے سائیاں
گلہ نہ کوئی زمیں سے اب تو، نہ ہی جہاں سے ہے کوئی شکوہ
یہ عشق تصویر بھی فریب اب ہے کیوں دکھاتی اے میرے سائیاں
..ہےعشق اول، ہے عشق آخر ، کہ عشق تو تیرا روپ ہے بس
کہ من میں ہے تیرے ذکر سے ضو یہ جھلملاتی اے میرے سائیاں
.میں اس کو جی کے تو دیکھ بیٹھی ہوں ، زندگی سے گلہ نہیں ہے
ہے میرے خوابوں کی لاش کا بوجھ یہ اٹھاتی اے میرے سائیاں
.سفر یہ کیسا سفر ہے جس کی نہیں ہے کوئی خبر مجھے اب
ہے تیری تقدیر کیسے کیسے زماں دکھاتی اے میرے سائیاں
۔۔۔۔
سلگ رہی ہے یہ دھیرے دھیرے، جھلس رہی ہے یہ سائے میں بھی
ہے کملی تیری ثنا کے تیرے یوں گیت گاتی اے میرے سائیاں
………………..
یہ شاہیں سانسیں تو لےرہی ہے، ترے ہی کن کی ہے آس اس کو
مزار پر اپنے روز و شب ہے دئیے جلاتی اے میرے سائیاں
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ڈیرہ غازی خان
Leave a Reply