ہوں مجرمِ حیات مگر یہ سزا نہ دو
عمرِ دراز کی مجھے تم یوں دعا نہ دو
اب تو تمہاری حد سے بہت دور آ چکی
اب تو مجھے بلانے کو کوئی صدا نہ دو
مفلس کے حق میں آپ کا انصاف خوب ہے
یعنی کہ مار ڈالو مگر آسرا نہ دو
اتنا کسی کو یاد بھی کرنا نہیں ہے ٹھیک
ایسا نہ ہو کہ تم کہیں خود کو بھلا نہ دو
حد سے زیادہ مجھ سے جو اُکتا ہے دل
پھر مجھ کو آپ زہر ہی دے دو !دوا نہ دو
ایسی بھی تیز گامی سفر میں بجا نہیں
نقشِ گزشتگاں کو کہیں تم مٹا نہ دو
تمثیلہ عہدِ ماضی کو اتنا کرو نہ یاد
دل میں دبی جو آگ ہے اسکو ہوا نہ دو
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply