مجھے دردِ دل کی دوا چاہیے تھی
فقط پیار کی اک نگہ چاہیے تھی
کھڑے ہو مِرے دُشمنوں کی صفوں میں
تمہیں مجھ سے کرنی وفا چاہیے تھی
رہا چاند تب تب چُھپا بادلوں میں
اندھیروں میں جب جب ضیا چاہیے تھی
خدا سے دعاٶں میں تم کو ہی مانگا
کوئی کب تمہارے سِوا چاہیے تھی
کِیے لال پِھرتے ہیں میرے لہو سے
ہتھیلی پہ اُن کو حنا چاہیے تھی
نہیں تھا تمہاری محبت کا طالب
مجھے بس تمہاری دعا چاہیے تھی
نِکلنا پڑا بزمِ یاراں سے ذُلفی
گُھٹن ہو رہی تھی , ہوا چاہیے تھی
شاعر ذوالفقار علی ذُلفی
( پنڈ دادنخان جہلم )
Leave a Reply