ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
ذلتیں سہتے رہے نیلام غیرت کی گئی
تب کہیں جا کر میاں حاصل یہ شہرت کی گئی
جانے کیسا شہر ہے جل اٹھتے ہیں جب بھی چراغ
بھیج کر آندھی اندھیروں کی حفاظت کی گئی
کچھ پتہ چل ہی نہ پایا وار کب کیسے ہوا
دوستی کی آڑ میں ہم سے عداوت کی گئی
ہو چکا تھا چند ہی لمحوں میں وہ قصہ تمام
اور اس قصے کی صدیوں تک وضاحت کی گئی
اے مرے دل ان کا اندازِ محبت دیکھ کر
لگ رہا ہے مجھ کو یوں گویا شرارت کی گئی
میں بھلا بچ پاتا کیسے ظلم کے پتھراؤ سے
کانچ کی دیوار سے میری حفاظت کی گئی
نیکیاں کرنے کا عاطفؔ کیا عجب انداز ہے
سیکڑوں کو لوٹ کر کچھ پر سخاوت کی گئی
گئی
Leave a Reply