کچھ مزہ تو جینے کا اِس ستم میں رکھا ہے
جور بھی ترا جاناں ، اب کرم میں رکھا ہے
پیچ پیچ کھلتی یہ عشق راہ کہتی ہے
جا ترا مقدر بھی زلف خم میں رکھا ہے
اک انا کی چادر ہے جو اُتر نہیں پاتی
راستہ وگرنہ تو اک قدم میں رکھا ہے
ڈھونڈ لے انہیں آکر ، ایک دن کوئی شائد
کر حنوط اشکوں کو ، چشمِ نم میں رکھا ہے
پیار کرنے والوں کا ایک ہی تصور ہے
ایک ہی تصور جو ، لفظ ہم میں رکھا ہے
جو بِتا نہیں سکتے ، سنگ خار کے جیون
ان کو ہم بتائیں کیا ، کیا الم میں رکھا ہے
وصل کی ہے ہر ساعت ہجر کے شکنجے میں
بابِ عشق کا آخر ، سوز و غم میں رکھا ہے
عامرمُعانؔ
Leave a Reply