کالم نگار:
محمد شہزاد بھٹی
آج ہم بات کرتے ہیں کفر و اسلام کی پہلی جنگ جو 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس بناء پر تاریخ اسلام میں اسے جنگ بدر یا غزوہ بدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس غزوہ بدر میں حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوا۔ اللہ تعالی نے باطل کو شکست اور حق کو فتح سے ہمکنار کیا۔ اصل سوچنے اور سمجنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں غزوہ بدر سے کیا سبق ملتا ہے؟ ایک لفظ ہے“غیرت” جسے ہم اپنی انفرادی ذات کے لیے تو استعمال کرنا جانتے ہیں جب ہماری ذات پر کوئی انگلی اٹھائے تو ہماری غیرت اس انگلی کو توڑ دینا چاہتی ہے لیکن جب اسلام پر کوئی انگلی اٹھاتا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر کوئی انگلی اٹھاتا ہے یا ہمارے ہی مسلمان بہن بھائیوں پر ظلم ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ یاد رہے، غزوہ بدر ہمیں غیرت کا درس دیتا ہے۔ ذرا سوچئیے، کیا غزوہ بدر اسلام کے لیے نہیں تھی؟ کیا غزوہ بدر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس کی خفاظت کے لیے نہیں تھی؟ مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کیا کیا ظلم نہیں کئیے گئے، کیا غزوہ بدر ان صحابہ کے اہل و عیال کے لیے نہیں تھی جن پر مکہ میں ظلم و ستم ہو رہا تھا؟ اسلام امن کا درس ضرور دیتا ہے لیکن تب جب مکہ فتح ہو جائے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمائیں آج عام معافی کا اعلان ہے۔ جب اسلام کے خلاف سازشیں کی جاری ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر انگلی اٹھائی جا رہی ہو اور ختم نبوت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور برما، شام، عراق، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہو تو پھر اسلام امن کا نہیں بلکہ غیرت کا درس دیتا ہے جیسا کہ غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عملی طور پر کر کے دکھایا۔ غزوہ بدر اسلامی تاریخ کا وہ سنہری واقعہ ہے جب 313 بے سر و سامان مسلمان اور سامنے ایک ہزار کے لشکر کفار سے ٹکرا گئے جو ہتھیاروں سے لیس تھا مگر جب بات اسلام کی ہو, نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس کی ہو, بات ظلم کے خلاف ہو تو غیرت اگر مگر نہیں کرتی غیرت خالات کا رونا نہیں روتی اور غیرت ہتھیاروں کو نہیں دیکھتی۔ بس اللہ اور رسول کا نام لے کر بدر میں کود جاتی ہے سمندروں میں گھوڑے ڈال دیتی ہے تو پھر اللہ تعالی فرشتے بھی بھیجتا ہے۔ اگر غیرت ایمانی زندہ ہو تو فرشتے آج بھی آ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، غزوہ بدر ایک جنگ ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے حوصلے، صبر اور اللہ تعالی پر بھروسے کا امتحان بھی تھا۔ غزوہ بدر میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور یہ ثابت کر دیا کہ ایمان کی طاقت مادی وسائل پر غالب آتی ہے۔ آج ہمیں غزوہ بدر کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ مسلمانوں کی کامیابی اور اسلام کی سر بلندی اسی میں ہے، اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Leave a Reply