rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
غزہ میں جنگ بھی جاری ہےاور بھوک کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔قحط سنگین ہو چکا ہےاور عوام بھوک کی وجہ سےشہیدہورہی ہے۔بھوک سے شہید ہونے والوں میں بڑوں کے علاوہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔کئی کئی دن بھوکے رہنے والےگھاس،پتوں اورجھاڑیوں کے علاوہ مردارجانور کھانے پر مجبور ہیں۔سوشل میڈیا پر کئی تصاویر اور ویڈیوز نظرآ جاتی ہیں جن میں لوگوں نے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں۔کچھ ایسی تصاویر نظر آتی ہیں جن میں دیکھنے والے انسان ہڈیوں کے ڈھانچوں کی صورت میں نظرآتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔یہاں تک کہ جو طبی عملہ وہاں خدمات سر انجام دے رہا ہے،ان پر بھی قحط کے اثرات پڑ رہے ہیں۔کافی عرصہ سے جاری جنگ میں کافی فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اوریہ جنگ ابھی تک رک نہیں رہی،حالانکہ جنگ کو روکنے کےمعاہدے بھی ہو چکے ہیں۔غزہ اسرائیل جنگ میں تقریبا 60 ہزار سےزائدافراد شہید ہو چکے ہیں اور بڑی تعداد زخمیوں کی بھی ہے۔بہت سےفلسطینی قید کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے ہیں۔فلسطینیوں کوتباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔خوراک کو روک کرمجبور کیا جا رہا ہے کہ فلسطینی غزہ سے ہجرت کر جائیں۔خوراک کے علاوہ ادویات،پانی اور دیگر ضروریات کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کچھ دن پہلے کم سے کم 101 فلسطینی بھوک سےشہید ہو گئےاور ان شہید ہونے والوں میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ایک سات دن کے بچہ کےبھی شہادت کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔
غزہ میں فلسطینیوں کو ہتھیاروں اور بھوک سےہلاک کیا جا رہا ہے،لیکن عالمی طاقتیں خاموش ہو کر تماشہ دیکھ رہی ہیں۔کئی طاقتیں اسرائیل کو سپورٹ کر رہی ہیں،حالانکہ غزہ کےرہائشیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔جنگ زدہ علاقے میں خوراک کی ویسے بھی کمی ہو جاتی ہے لیکن اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر کےخوراک کوغزہ میں داخل ہونے سے روک چکا ہے۔ہزاروں خوراک کے ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔عالمی دباؤ کی وجہ سے اسرئیل نے غزہ کے تین علاقوں میں روزانہ 10 گھنٹہ تک کے لیے عسکری کاروائیوں کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیل کی طرف سے یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ فضائی اور زمینی راستے سے امداد کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نےاعلان کیا ہے کہ تین مخصوص علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر عسکری کاروائیاں روک دی جائے گی۔اسرائیلی فوج کے مطابق یہ عارضی وقفہ صبح دس بجے سے لے کر شام آٹھ بجے تک،تاحکم ثانی نافذالعمل عمل رہے گا۔اسرائیل کے اس اعلان کوعالمی طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا کیونکہ کئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہیں جن میں خوراک کے لیےاکٹھے ہونے والےافراد پر فائرنگ کر دی جاتی ہے۔دنیا کو دکھانے کے لیےفضا میں بھی خوراک پھینکی جاتی ہے،لیکن وہ خوراک یا تو ضائع ہو جاتی ہےیا چند لوگوں کو ہی ملتی ہے۔یہ خوراک اسرائیل اس لیے بھی غزہ میں بھیجنے دے رہا ہےکہ عالمی برادری نے قحط اوربھوک کےسنگین بحران پراسرائیل پر شدید تنقید کی ہے۔تاہم اقوام متحدہ سمیت کئی امدادی اداروں نےاس اقدام کے موثر ہونے پر شدید شکوک کا اظہار کیا ہے۔خوراک فوری طور پر پہنچانی ہوگی ورنہ بہت زیادہ شہادتیں ہو سکتی ہیں۔بھوک کی اذیت چھوٹے بچوں سے لے کر بڑوں تک برداشت کر رہے ہیں۔
ایک طرف غزہ میں جنگ اور قحط نےشدید تباہی مچائی ہوئی ہے،دوسری طرف عالمی طاقتوں کی خاموشی افسوس ناک ہے۔عالمی طاقتوں کو تو چھوڑیے،اسلامی ریاستیں بھی خاموش ہیں۔اسلامی ریاستوں کی خاموشی تکلیف دہ ہونے کے علاوہ شرمناک بھی ہے۔ایک طرف موت کا رقص جاری ہے اور دوسری طرف زندگی کو بھرپور انجوائے کیا جا رہا ہے۔مظلوم انسان جنگ اور بھوک کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں۔اسپتال تباہ ہو چکے ہیں،رہائشی عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں،غزہ میں رہنے والے انسانوں کوہر وقت موت کا خوف لاحق ہے،علاوہ ازیں قحط نے بھی رہی سہی کسرپوری کر دی ہے،مگر اسلامی ریاستوں کےحکمرانوں کی بےحسی بہت ہی افسوسناک ہے۔فلسطینیوں کوبچانے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔دیر ہونے کی صورت میں بہت بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فوری طور پر جنگ بندی کرنی ہوگی اور فلسطینیوں تک فوری طور پر خوراک پہنچانی ہوگی۔خوراک کے علاوہ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء بھی فوری طور پر مہیا کی جائیں۔فلسطینیوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ غزہ سے ہجرت کر کےکسی دوسری ملک کےطرف چلے جائیں اور نہ جانے کی صورت میں تباہ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ تباہ کیا بھی جا رہا ہے۔فلسطینی اپنا ملک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے،جس کو عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔فلسطینیوں کےحق کو تسلیم کیا جائے اور ان کو غزہ میں ہی رہنے دیا جائے۔اقوام متحدہ اخلاقی طور پر غزہ کی مظلوموں کی مدد کرے اور اسلامی دنیا بھی فلسطینیوں کی فوری طور پر مدد کرے۔جنگ سے بچنے والے فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں،ان کو بچانا ضروری ہے۔
اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ انسان دوست غیر مسلم بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔بھوک بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے اور انسان پل پل مرنا شروع کر دیتا ہے۔آج فلسطینی بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں،کل کسی اور کا نمبر بھی آسکتا ہے۔مسلمان قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دیں گے کہ انہوں نے فلسطینیوں کی مدد کیوں نہیں کی؟اللہ تعالی بھی پوچھے گا کہ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کو کیوں نہ بچایا گیا؟انسانی ہمدردی کے تحت بھی دوسروں کی مدد کرنے کااسلام نے حکم دیا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ مظلوموں کی فوری طور پر مدد کی جائے۔جنگ کو بھی روکا جائے،لیکن فوری طور پر فلسطینیوں تک خوراک پہنچانا ضروری ہے۔
Leave a Reply