rki.news
(تحریر احسن انصاری)
تاریخ انسانیت کے سفر کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ یہ ہمیں یہ حقیقت بتاتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں ہوتا جبکہ عدل اور انصاف کا پیغام ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ صدیوں پہلے جب محمد بن قاسم سندھ کی سرزمین پر اپنی مہم کے ساتھ آئے تو ان کا بنیادی مقصد مظلوموں کو انصاف دینا اور انسانیت کو سہارا دینا تھا۔ آج، جب ہم اکیسویں صدی میں غزہ کے لیے روانہ ہونے والے عالمی فلوٹیلا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے، کردار مختلف ہیں اور حالات بھی نئے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے مظلوموں کی داد رسی۔
711 عیسوی میں سندھ پر راجہ داہر کی حکومت قائم تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ظلم اور طاقت کے ذریعے کمزوروں کو دبایا جاتا تھا۔ مسلمان تاجروں کے جہاز لوٹے گئے اور خواتین و بچوں کو قید کر لیا گیا۔ ان بے سہارا عورتوں کی فریاد خلیفہ وقت تک پہنچی۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نوجوان سالار محمد بن قاسم کو اس مہم پر روانہ کیا۔ محمد بن قاسم نے سمندر کے راستے سندھ کا رخ کیا۔ ان کا مقصد صرف ایک فوجی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ قیدیوں کو رہا کرانا اور عدل قائم کرنا تھا۔ ان کی آمد نے سندھ اور پورے برصغیر کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
آج کئی صدیوں بعد فلسطین کا خطہ غزہ اسی ظلم کی ایک اور شکل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی نے وہاں کے عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم کر رکھا ہے۔ خوراک، دوائی اور ایندھن جیسی اشیاء ناپید ہیں۔ اسپتال علاج کی سہولتوں کے بغیر ہیں اور بچے بھوک و خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے روزگار اور مستقبل کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ یہ ناکہ بندی دراصل اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے جسے انسانی حقوق کے ادارے بارہا غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔
اس صورتِ حال نے دنیا بھر کے انسان دوست افراد کو جھنجھوڑا۔ مختلف ممالک سے انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، پارلیمانی نمائندے اور ڈاکٹر جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سمندر کے راستے غزہ پہنچیں گے۔ اس مشن کو “عالمی فلوٹیلا” کہا گیا۔ اس بار کا فلوٹیلا “عالمی صمود فلوٹیلا” کے نام سے روانہ ہوا، جو اپنی نوعیت کا سب سے بڑا قافلہ تھا۔ اس میں درجنوں چھوٹی بڑی کشتیاں شامل تھیں اور دنیا کے کئی ممالک کے کارکن اس پر سوار تھے۔
اگرچہ کشتیوں پر موجود امداد غزہ کی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن اصل طاقت اس کا پیغام تھا۔ یہ پیغام کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو مظلوموں کی آواز بننے کے لیے تیار ہیں۔ یہ قافلہ سمندر کے راستے اپنی منزل کی طرف بڑھا تو اسے راستے میں ڈرونز، بحریہ کی رکاوٹوں اور خراب موسم کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آخرکار اکتوبر 2025 کے آغاز میں اسرائیلی بحریہ نے اس کو بین الاقوامی پانیوں میں روک لیا اور متعدد کارکن گرفتار کر لیے۔
یہ واقعہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا سبب بنا۔ یورپ کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی اور عالمی میڈیا نے اس موضوع کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ اگرچہ فلوٹیلا اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا لیکن اس نے ایک کامیابی ضرور حاصل کی۔ اس نے ایک بار پھر دنیا کو یاد دلایا کہ غزہ کے عوام تنہا نہیں ہیں۔
محمد بن قاسم کی مہم اور آج کے عالمی فلوٹیلا میں یہی سب سے بڑی مماثلت ہے۔ دونوں مظلوموں کی پکار پر اٹھے۔ دونوں نے سمندر کا راستہ اختیار کیا۔ دونوں نے خطرات کے باوجود اپنے مقصد کی طرف قدم بڑھایا۔ محمد بن قاسم نے تلوار کے ذریعے ظلم کا مقابلہ کیا جبکہ آج کے کارکن پرامن جدوجہد کے ذریعے اپنی بات دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی ہے: انصاف اور انسانیت کا دفاع۔
یہ دونوں مثالیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ مظلوم کبھی تنہا نہیں رہتے۔ وقت اور حالات بدلتے ہیں لیکن انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ محمد بن قاسم نے سندھ کے مظلوموں کو امید دی اور آج کا عالمی فلوٹیلا غزہ کے عوام کے لیے روشنی کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔
غزہ کے عوام کا المیہ آج کے عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا اس پر خاموش رہی تو تاریخ اسے معاف نہیں کرے گی۔ عالمی فلوٹیلا کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ جس طرح محمد بن قاسم کی مہم انصاف کی علامت بن گئی، ویسے ہی یہ قافلہ بھی ظلم کے مقابلے میں انسانی حوصلے اور استقامت کی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
Leave a Reply