Today ePaper
Rahbar e Kisan International

غیرت کے نام پر بے غیرتی کی کہانی

Articles , Snippets , / Tuesday, July 22nd, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بلوچستان میں حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو نے پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا ہے، جس میں مبینہ طور پر پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑے کو سرعام گولیاں مار کر قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو نہ صرف انسانیت کے وقار کو مجروح کرتی ہے بلکہ یہ ریاستی، قانونی، مذہبی اور قبائلی اقدار کے پیچیدہ تصادم کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

پاکستان کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں “غیرت کے نام پر قتل” ایک دیرینہ سماجی المیہ ہے، جو نوآبادیاتی دور سے لے کر موجودہ جدید ریاستی نظام تک کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔ انگریز دور میں بھی قتلِ غیرت کو بعض قبائلی علاقوں میں “روایتی انصاف” کا حصہ تصور کیا جاتا رہا، اور ریاستی ادارے اکثر ان معاملات سے صرفِ نظر کرتے رہے۔ آزادی کے بعد بھی ان علاقوں میں ریاست کی گرفت کمزور رہی اور مقامی جرگے، روایتی پنچایتیں اور سردارانہ نظام ایسے جرائم کو “جائز” یا “روایتی عدل” کے نام پر تحفظ دیتے رہے۔

اس ویڈیو میں جو بات انتہائی افسوسناک اور علامتی ہے، وہ یہ کہ مقتولہ لڑکی مکمل حجاب میں ملبوس ہے اور اپنے ہاتھوں میں قرآن پاک تھامے ہوئے ہے ،گویا وہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے آخری روحانی اور اخلاقی حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اس کے باوجود، بیس سے زائد مسلح افراد کے ہجوم میں کسی ایک دل میں بھی رحم نہیں جاگا اور لڑکی کو بےدردی سے گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اس کے بعد اسی بےرحمی سے لڑکے کو بھی قتل کر دیا گیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ریاست کی مدعیت میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور گیارہ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیکن تاریخ کا تلخ سبق یہ ہے کہ ایسے کیسز اکثر عدالتی موشگافیوں یا قبائلی دباؤ کی نذر ہو جاتے ہیں اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔

غیرت کے نام پر قتل کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ ممتاز دینی اداروں، بشمول مفتیانِ کرام، کا واضح فتویٰ ہے کہ اگر ایک عاقل و بالغ مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے شرعی اجازت حاصل ہے، اگرچہ خاندانی رضا کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی پر ناجائز تعلقات کا شبہ ہو بھی، تو اس کی سزا صرف مجاز عدالت ہی دے سکتی ہے، نہ کہ کوئی فرد، جرگہ یا قبیلہ۔ قرآن و سنت کے مطابق کسی کی جان لینا بغیر عدالتی فیصلہ ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے۔

پاکستانی قانون خاص طور پر “غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کا ایکٹ 2016” ایسے جرائم کو ناقابلِ راضی نامہ جرم قرار دیتا ہے، لیکن اس قانون کے مؤثر نفاذ میں ریاستی کمزوری، عدالتی پیچیدگیاں اور قبائلی دباؤ بڑی رکاوٹ ہیں۔

یہ واقعہ اس امر کا غماز ہے کہ آٹھ دہائیوں میں ہم ایک ایسی سماج نہ بنا سکے جو فرد کی آزادی، انسانی وقار اور خواتین کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے سکے۔ معاشرتی ترقی صرف عمارتیں بنانے یا ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے سے نہیں ہوتی، بلکہ انفرادی آزادیوں کے تحفظ اور پسماندہ رسوم کے خاتمے سے ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ قانون کا سخت اور غیر جانبدارانہ اطلاق کیا جائے تاکہ کوئی بھی قبائلی، سرداری یا مذہبی دباؤ انصاف کے تقاضوں میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر دینی ادارے عوامی سطح پر واضح طور پر یہ پیغام دیں کہ غیرت کے نام پر قتل سراسر حرام، مجرمانہ اور غیر اسلامی عمل ہے۔

قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں سماجی شعور کی مہمات چلائی جائیں تاکہ عوام کو اپنے اور دوسروں کے بنیادی حقوق کا شعور حاصل ہو۔

تعلیم، میڈیا اور نصاب کے ذریعے نوجوان نسل کو سماجی انصاف اور قانون کی بالادستی کا شعور دیا جائے۔

بلوچستان کا یہ سانحہ ایک آزمائش بھی ہے اور ایک موقع بھی، آزمائش ہمارے ضمیر، ریاستی اداروں اور سماجی ڈھانچے کی؛ اور موقع اس ظلم کے خلاف قانون و اقدار کی بنیاد پر ایک ایسی فکری اور قانونی جنگ چھیڑنے کا ہے، جس سے نہ صرف متاثرین کو انصاف ملے بلکہ آنے والی نسلوں کو ایسے واقعات سے بچایا جا سکے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International