Today ePaper
Rahbar e Kisan International

فطری اور فنی شاعر: فن اور فطرت کی ابدی کشمکش

Articles , Snippets , / Tuesday, November 4th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے، ٹیلفورڈ (انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری انسانی احساس، وجدان اور شعور کی وہ نازک آمیزش ہے جس میں دل کی دھڑکنیں لفظوں میں ڈھلتی ہیں اور تخیل اپنی معصوم پرواز کے ساتھ فن کا آسمان چھوتا ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو دو نمایاں رجحانات واضح نظر آتے ہیں: ایک وہ شاعر جو فن کے رموز و قواعد ۔ یعنی علمِ عروض، قافیہ، ردیف، بحر اور وزن ۔ میں مہارت رکھتے ہیں؛ دوسرے وہ جو فطری جوشِ سخن کے سہارے، کسی رسمی تربیت کے بغیر، وجدانی کیفیت میں شعر کہتے ہیں۔ پہلے گروہ کے ہاں شعورِ فن غالب ہے، جب کہ دوسرے کے ہاں وجدِ فطرت۔ لیکن شاعری کا حسن تب مکمل ہوتا ہے جب یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں۔
فنی شاعر دراصل زبان اور عروض کے معمار ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک جمالیاتی ضبط، ایک معنوی ترتیب، اور ایک عروضی توازن پایا جاتا ہے۔ میر تقی میر، سودا، غالب، انیس، داغ، حسرت موہانی، فانی بدایونی اور اقبال جیسے اساتذہ کا فن اس بات کا ثبوت ہے کہ شعر صرف جذبے کا نہیں بلکہ فکری و لسانی تربیت کا بھی محتاج ہے۔ غالب کی شاعری فلسفے اور فن کے سنگم پر ایستادہ ہے۔ ان کے اشعار میں وزن اور بحر کی ایسی ہم آہنگی ہے کہ فکر کا پیچیدہ ترین نکتہ بھی نغمگی کے پردے میں آسان ہو جاتا ہے۔ اقبال کے ہاں فن کی ریاضت اور وجدان کی شدت دونوں باہم مربوط ہیں۔ ان کا ہر مصرع فنی مہارت کا بھی شاہکار ہے اور فکری ارتقا کا بھی مظہر۔ یہی وہ صنفِ شاعری ہے جسے قدما نے “صنعتِ شعر” کہا، یعنی ایسا فن جس میں الفاظ کے انتخاب، معنوی ترتیب اور صوتی توازن کا مکمل ادراک ہو۔
اس کے برعکس فطری شاعر اپنے دل کی سلطنت کا بادشاہ ہوتا ہے۔ وہ کسی عروضی کتاب یا بحر کے قاعدے سے نہیں بلکہ اپنی کیفیت سے شعر کہتا ہے۔ اس کے ہاں فن کا حساب نہیں، صرف جذبے کا بہاؤ ہے۔ ایسے شاعر کے لیے عروض محض ایک غیر محسوس قید ہے۔ جگر مرادآبادی، احمد فراز، پروین شاکر، ساحر لدھیانوی اور جزوی طور پر فانی بدایونی بھی اس قبیلے کے نمایاں نام ہیں جنہوں نے اپنے احساسات کی صداقت کو فن کی پیچیدگیوں پر ترجیح دی۔ ان کے اشعار میں ایک براہِ راست تاثیر ہے جو قاری کے دل پر فوراً اثر کرتی ہے۔ اسی سلسلے میں لوک اور صوفی شعرا بھی شامل ہیں، جن کی زبان میں وزن کی بےقاعدگی کے باوجود ایک قدرتی ترنم ہے۔ پنجابی کے وارث شاہ، بلھے شاہ اور سندھی کے شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے بزرگوں نے بغیر کسی عروضی علم کے ایسی شاعری تخلیق کی جو آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں فن کا نہیں، وجدان کا کمال ہے۔
یہ سوال ہمیشہ قائم رہے گا کہ ان دونوں میں برتری کس کی ہے؟ فنی شاعر زبان اور اظہار کو منظم کرتا ہے، مگر کبھی کبھی جذباتی شدت نظم کے سانچے میں دب کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس فطری شاعر جذبے کی شدت سے تو لبریز ہوتا ہے لیکن کبھی فنی بےقاعدگی اس کے کلام کی تاثیر کو محدود کر دیتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ فنی شاعر کی طاقت عقل اور تربیت میں ہے، اور فطری شاعر کی قوت احساس اور الہام میں۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے طور پر مکمل نہیں، کیونکہ فن کے بغیر جذبہ بے ربط ہے اور جذبے کے بغیر فن بے جان۔
جب یہ دونوں جہتیں ایک ہو جائیں تو شاعری اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ میر کی سادگی میں فطرت کی گہرائی بھی ہے اور فن کی نرمی بھی۔ غالب کے ہاں نکتہ آفرینی فنی مہارت سے مزین ہے مگر روح وجدانی ہے۔ اقبال نے فن کو جذبے کے تابع کر کے شاعری میں ایک نئی روح پھونکی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر محض لفظوں کا کاریگر نہیں رہتا بلکہ خالقِ احساس بن جاتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ فنی شاعر زمین سے جڑا ہے اور فطری شاعر آسمان سے؛ لیکن شاعری کی اصل روشنی تب جنم لیتی ہے جب زمین اور آسمان افق پر مل جاتے ہیں۔ یہی افق وہ مقام ہے جہاں فن، فطرت کا وسیلہ بن جاتا ہے اور فطرت، فن کا الہام۔
شاعری کی روح نہ تو محض علم میں ہے، نہ صرف جذبے میں۔ اس کی حقیقت ان دونوں کے حسین امتزاج میں پوشیدہ ہے۔ میر کے الفاظ میں:
شعر میرے کریں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اور غالب نے عشق کے پردے میں اسی نکتہ کو کھولا کہ عشق شاعری کا ازلی جوہر ہے ۔ خواہ وہ فنی پیمانوں میں ڈھل کر پیدا ہو یا وجدانی طوفان سے ابھرے۔ آخرکار، سچا شاعر وہ ہے جو فن کی احتیاط اور دل کی بے خودی کو ایک ساتھ نبھانا جانتا ہو، تاکہ شعر محض الفاظ کا مجموعہ نہ رہے بلکہ روح کی آواز بن جائے، جو صدیوں تک سنائی دیتی رہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International