(تحریر: شہباز ظفر)
اسرائیل-فلسطین تنازعہ دہائیوں سے جاری ہے، جو تاریخی، سیاسی اور ثقافتی پیچیدگیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس تنازعے کا سب سے اہم پہلو بے دخلی کا مسئلہ ہے، جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو متاثر کیا ہے۔
میں فلسطینیوں کے اپنی سرزمین میں رہنے کے حق کے حق میں دلیل دیتا ہوں، اور اس کی تاریخی اہمیت، بین الاقوامی قوانین، ثقافتی اہمیت، اور بے دخلی سے جڑے انسانی حقوق کے مسائل پر روشنی ڈالتا ہوں۔
فلسطینی صدیوں سے اس سرزمین پر آباد ہیں، اور ان کی ثقافتی وراثت قدیم تہذیبوں تک جاتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں قوم پرستی کے رجحان نے یہودی اور عرب آبادی کے درمیان جدید دور کے تنازعے کو جنم دیا۔
1948 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران ہونے والی تباہی کو “نکبہ” کہا جاتا ہے، جس میں تقریباً 7 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں 400 سے زائد فلسطینی دیہات تباہ کر دیے گئے، جس سے کئی بستیاں مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ بعد میں 1967 کی چھ روزہ جنگ نے مزید بے دخلی کو جنم دیا اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ ہوگیا۔
مسلسل اسرائیلی آبادکاری کی توسیع اور فوجی کارروائیاں فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے دخلی کے مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے معاہدے (ICCPR) کا آرٹیکل 1 تمام اقوام کے خود ارادیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے، جس میں فلسطینی بھی شامل ہیں۔ مختلف عالمی فورمز میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جا چکا ہے، جو ان کے اپنی سرزمین پر خودمختاری کے دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنی سرزمین پر واپسی کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ بین الاقوامی قوانین بھی اس حق کی تائید کرتے ہیں اور بے دخلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کو لازمی قرار دیتے ہیں۔
چوتھے جنیوا کنونشن جیسے انسانی حقوق کے قوانین آبادی کی جبری منتقلی کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور جنگ کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کی مسلسل بے دخلی ان بنیادی اصولوں کے منافی ہے اور شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بن رہی ہے۔
فلسطینیوں کا اپنی زمین کے ساتھ گہرا روحانی اور ثقافتی تعلق ہے، جو ان کے رسم و رواج، روایات اور طرزِ زندگی میں جھلکتا ہے۔ ان کی سرزمین ان کی شناخت کا بنیادی حصہ ہے۔ تاریخی مقامات، زراعتی روایات، اور لوک کہانیاں فلسطینی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں، جو ان کے آبا و اجداد کی سرزمین میں پیوست ہیں۔
بے دخلی فلسطینی ثقافت اور شناخت کے مٹنے کا سبب بنتی ہے۔ وہ کمیونٹیز جو اپنی زمین سے جدا ہو جاتی ہیں، وہ اپنی ثقافتی روایات اور سماجی روابط کھو دیتی ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے اپنی زمین سے جڑے رہنا ان کی شناخت اور وراثت کو محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
علاوہ ازیں، بے دخلی خاندانی ڈھانچوں میں خلل ڈالتی ہے، روزگار کے مواقع چھین لیتی ہے، اور بچوں کی تعلیم و صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ مسلسل بے گھری کی حالت میں رہنے کے نفسیاتی اثرات بھی شدید ہوتے ہیں، جو ذہنی صحت کے طویل مدتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اپنی ذمہ داری ادا کرے اور بے دخل فلسطینیوں کے مسائل کو حل کرے۔ ان کے حقِ واپسی کی حمایت کی جائے اور انہیں اپنی زمین پر دوبارہ بسانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
فلسطینیوں کو اپنی زندگی دوبارہ سنوارنے میں مدد دینے کے لیے انسانی امداد اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں، تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق اور ضروریات بحال کر سکیں۔
فلسطینیوں کا اپنی سرزمین پر رہنے کا حق تاریخی بنیادوں پر قائم ہے، بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ ہے، اور ان کی ثقافتی شناخت و وراثت کو محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
بے دخلی نہ صرف ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ شدید انسانی المیے کو بھی جنم دیتی ہے۔ عالمی برادری کو فلسطینیوں کی خود ارادیت کی جدوجہد کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے بنیادی حقوق کی حمایت کرنی ہوگی۔
فلسطینی عوام کو امن، عزت اور خودمختاری کے ساتھ اپنی آبائی سرزمین میں رہنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس تنازعے کے منصفانہ اور پرامن حل کی حمایت ہی تمام فریقین کے لیے ایک بہتر اور مساوی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
Leave a Reply