تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

فلسطین کس کا ہے؟

Articles , / Friday, May 17th, 2024

مضمون نگار
عزرا خالد (ام عمر)
کراچی

جزیرہ نما عرب، فلسطین، یروشلم، دیوارِ گریہ، قبۃ الصخرا، مسجدِ اقصیٰ، کلیسائے مقبرہ مقدس اس وقت ساری دنیا میں تنازعات کا مرکز بنے ہوئے ہیں-

انسانیت کا یہ مقدس ترین علاقہ کل ایک مربع کلومیٹر کا ایک چھوٹا سا علاقہ جو دنیا کے چار ارب سے زیادہ انسانوں کے لیے انتہائی مقدس لیکن باعث تنازعہ بنادیا گیا ہے۔
بیت المقدس کی ایک پہاڑی پر ایک احاطہ قائم ہے حرم الشریف کہا جاتا ہے ۔ یہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے بےحد مقدس ہے۔
حرم الشریف میں سنہرے گنبد والی ایک عمارت بیت المقدس کی سب سے مشہور علامت ہے۔ اسے بہت سے لوگ مسجدِ اقصیٰ سمجھتے ہیں لیکن دراصل یہ قبۃ الصخرہ یا Dome of the Rock ہے۔ یہ 691 عیسوی میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں تعمیر ہوئی تھی اور دنیا میں قدیم ترین اسلامی عمارتوں میں سے ایک ہے۔

قبۃ الصخرہ سے صرف چند قدم کے فاصلے پر سرمئی گنبد والی مسجدِ اقصیٰ ہے جسے قبلۂ اول ہونے کے ناطے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہیں سے حضرت محمد ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
اس جگہ پر ممتاز صحابی اور دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کروائی تھی، جسے اموی دور میں توسیع دی گئی۔ تاہم بعد میں یہ زلزلوں میں تباہ ہوتی رہی اور اس کی جگہ نئی عمارتیں بنتی رہیں۔

اسی احاطے کی باہری جانب ایک دیوار ہے جسے عربی میں ’حائط البراق‘ یا دیوارِ براق کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے ’ویسٹرن وال‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں حضرت محمد ﷺ نے معراج پر جاتے وقت اپنی سواری براق کو باندھا تھا۔

یہودیوں کے مطابق یہاں دوسرا معبد قائم تھا اس لیے یہ یہودیوں کے نزدیک بھی مقدس مقام ہے۔

حرم الشریف سے صرف نصف کلومیٹر دور مسیحیت کا متبرک ترین مقام واقع ہے، جسے کلیسائے مقبرہ مقدس یا Church of the Holy Sepulcher کہا جاتا ہے۔ مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق یہاں حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا خالی مقبرہ ہے۔

تین بڑے مذاہب کی تین اہم ترین عبادت گاہوں کے ایک جگہ اکٹھا ہونے کی وجہ سے یہ چھوٹا سا علاقہ بہت بڑا فلیش پوائنٹ بھی بن گیا ہے

کیا ابراہیمی مذاہب وجہ تنازعہ ہیں؟ کیا الله نے ایسا ہی چاہا تھا؟

آئیں فلسطین کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالیں-

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش 2160 قبل مسیح شہر سوسس ایران (سابقہ بابل) یا 2118 قبل مسیح شہر اورک عراق میں ہوئی تھی-
۔
وہ تین ابراہیمی مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کے بانی ہیں۔ وہ بہت سارے انبیائے کرام کے باپ ہیں، جن میں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے اور انہوں نے تاریخ پر گہرا اثر ڈالا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ابراہیم ن السلام کچھ روایات کے مطابق 1850 قبل مسیح میں جبکہ دیگر روایات کے مطابق، وہ 2000 قبل مسیح میں خدا کے حکم سےاپنے وطن سے نکل کر فلسطین پہنچے ( اس وقت کاکنعان)- حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فلسطین میں آمد ایک اہم تاریخی واقعہ تھا- اسلامی روایات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین میں الخلیل (Hebron)، بیت المقدس (Jerusalem) اور بیت لحم (Bethlehem) شامل ہیں۔ ان مقامات پر آج بھی انبیائے کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں۔

اپ نے اپنی بیوی سارہ اور اپنے بھتیجے لوط کے ساتھ فلسطین کا سفر کیا۔ وہ پہلے مصر گئے، لیکن پھر وہ واپس فلسطین آ گئے۔
وہاں آپ کے بیٹے اسحاق اور یعقوب کو پیدا ہوئے۔ اسحاق کے بیٹے بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد تھے۔ بنی اسرائیل نے بعد میں مصر میں قید کی زندگی گزاری-

یروشلم (جو آج چپقلش کا مرکز بنا ہوا ہے) کی بنیاد 10ویں صدی قبل مسیح میں جبتی لوگوں نے رکھی تھی جو ایک سامی قبائلی گروہ تھے اور فلسطین کے علاقے میں رہتے تھے۔ انہوں نے یروشلم کو ایک قلعہ بند شہر کے طور پر آباد کیا اور اسے “یروسالم” نام دیا، جس کا مطلب ہے “سلام کا شہر”۔

یروشلم میں بعد میں یہودی، عیسائی اور مسلمان بھی آباد ہوئے۔ یہودیوں کے لیے، یروشلم ان کا مقدس ترین شہر ہے، کیونکہ یہاں ان کے کئی مذہبی مقامات واقع ہیں۔ عیسائیوں کے لیے بھی یروشلم عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور وفات کا مرکز ہے، اور یہاں ان کے بھی کئی مقدس مقامات واقع ہیں۔ مسلمانوں کے لیے، یروشلم ان کا تیسرا مقدس ترین شہر ہے، کیونکہ یہاں مسجد الاقصیٰ واقع ہے، جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

یروشلم ایک متنازعہ شہر ہے، جس پر یہودی، عیسائی اور مسلمان سب دعویٰ کرتے ہیں۔ شہر کے کچھ حصے اسرائیل کے زیر انتظام ہیں، جبکہ دیگر حصے فلسطین کے زیر انتظام ہیں۔ اس شہر ہی کی وجہ سے فلسطین کا خطہ آج کے دور میں تازعات کا مرکز بنا ہوا ہے-

یروشلم کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے، اور یہ ایک اہم مذہبی، تاریخی اور سیاسی شہر ہے۔

یروشلم کی آبادی تقریباً 900,000 ہے۔ شہر کی اکثریت 60% آبادی یہودی ہے,
عیسائیوں کی آبادی تقریباً 30% ہے، جبکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً 10% ہے۔
یروشلم ایک بین الاقوامی شہر ہے، اور یہاں دنیا بھر کے لوگ رہتے ہیں۔

فلسطین کی زبانوں کی تاریخ بھی ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ ابتدائی طور پر، فلسطین میں مختلف سامی زبانیں بولی جاتی تھیں، بشمول عبرانی، آرامی اور کنعانی زبانیں۔

فلسطین میں زبانوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہے:
عربی زبان: 90% آبادی
عبرانی زبان: 10% آبادی
دیگر زبانیں: اقلیت کی زبانیں جو یہ ہیں:

ارمنی زبان: فلسطین میں ایک اقلیتی زبان۔
ترکی زبان: فلسطین میں ایک اقلیتی زبان۔
چیچن زبان: فلسطین میں ایک اقلیتی زبان۔
جپسی زبان: فلسطین میں ایک اقلیتی زبان

عبرانی زبان فلسطین کی سب سے قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ زبان 10ویں صدی قبل مسیح سے فلسطین میں بولی جا رہی ہے۔ عبرانی زبان یہودیوں کی مذہبی زبان ہے، اور یہ تورات اور دیگر یہودی متون کو لکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
آرامی زبان ایک اور سامی زبان ہے جو فلسطین میں بولی جاتی تھی۔ یہ زبان 8ویں صدی قبل مسیح میں فلسطین میں داخل ہوئی، اور یہ 1ویں صدی عیسوی تک فلسطین کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تھی۔ آرامی زبان عیسائیوں کی مذہبی زبان تھی، اور یہ عیسیٰ کے زمانے میں فلسطین میں بولی جاتی تھی۔
کنعانی زبانیں فلسطین میں بولی جانے والی دیگر سامی زبانیں تھیں۔ ان زبانوں میں عبرانی اور آرامی زبانیں بھی شامل ہیں۔
1ویں صدی عیسوی میں، روم نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد، لاطینی زبان فلسطین کی سرکاری زبان بن گئی۔ لاطینی زبان کے ساتھ ساتھ، یونانی زبان بھی فلسطین میں بولی جانے لگی۔
7ویں صدی عیسوی میں، عربوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد، عربی زبان فلسطین کی سرکاری زبان بن گئی۔ عربی زبان اب فلسطین کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

1948 میں، اسرائیل کے قیام کے بعد، عبرانی زبان کو اسرائیل کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان اب اسرائیل کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔
فلسطین میں بولی جانے والی دیگر زبانوں میں شامل ہیں:
عربی زبان: فلسطین کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان۔
عبرانی زبان: اسرائیل کی سرکاری زبان۔

اب آئیں سوال کاجواب تلاش کریں-
فلسطین کس کا ہے؟

فلسطین ایک خطہ زمین ہے جس پر ہمیشہ الله نے اپنی نعمتیں نازل کیں (انسان کی تمام نافرمانیوں اور فساد کے باوجود)- مکہ اور فلسطین کا مقام تقریبآ ایک سا ہے-
ساری ملکیت الله کی ہے وہ چاہے مکہ ہو، مدینہ پو یا بیت المقدس یا کوئی اور انتہائی مقدس مقام کسی مذہب یا غیر مذہب کے قوت انتظام میں-

تو یہ جھگڑا ہی غلط ہے کہ فلسطین کس کا ہے- الله ہی کے فرمان کے مطابق آدم اور اس کی نسل کو خلیفۃالارض مقرر کیا علم (نام) عطا کرنے کے بعد- یعنی قوت انتظام اس کو دی جائے گی جس کا علم (ناموں کا) زیادہ ہوگا بلا تعصب مزہب و ایمان کے- اور ہم اس اصول کو ساری تاریخ میں لاگو دیکھتے ہیں-

پھر یہ ظلم وبربریت کون کر رہا ہے- انسان جو اللہ ہی کے فرمان کے مطابق سچ یا غلط انصاف یا ظلم کرنے کے لئے مکلف ہیں-

اب یہ میرا اور آپ کا کام ہے کہ ہم:
1- ہم علم حاصل کریں تاکہ قوت انتظامیہ کے حقدار ہوجائیں-
2- ہم انصاف کا ساتھ دیں اور ظلم کو مٹائیں تاکہ دنیا میں بھیجنے کا مقصد حاصل کریں اور اس جگہ کو حاصل کرسکیں جہاں مکمل امن (paradise) ہوگا-
3- صبر اور شکر کے ذریعے اس دنیا کو حزن اور ملال سے پاک کرنے کی کوشش کریں تاکہ حزن و ملال سے پاک جنت حاصل کرسکیں-

وما علینا الالبلاغ


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International