Today ePaper
Rahbar e Kisan International

فلسفہ سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم اور معاشرے میں اس کی اہمیت

Articles , Snippets , / Friday, August 29th, 2025

rki.news

تحریر احسن انصاری

انسانی تاریخ میں اگر کسی ہستی کو سب سے زیادہ ہمہ گیر فوقیت
حاصل ہوئی ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ کسی ایک دور یا علاقے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعلان فرمایا: “لَقَدْ کَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” (الاحزاب: 21)
ترجمہ: “یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔” یہ اعلان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سیرت کا مطالعہ محض مذہبی عقیدت نہیں بلکہ ایک ایسا آفاقی فلسفہ ہے جو انسانی زندگی کو توازن، مقصد اور کامیابی عطا کرتا ہے۔

فلسفہ سیرت سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو صرف تاریخی واقعات کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ ان کے پیچھے موجود حکمت اور اصول کو سمجھا جائے۔ صبر و استقامت، عدل و انصاف، مساوات، محبت اور اللہ سے تعلق دراصل وہ بنیادیں ہیں جو فلسفہ سیرت کی تشکیل کرتی ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی سے یہ واضح کردیا کہ انسان کی اصل پہچان اس کا کردار ہے۔ آپ نے فرمایا: “إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ” یعنی مجھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔”

معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات، رواداری اور عدل کی وہ بنیاد رکھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ میثاقِ مدینہ اس فلسفے کا عملی مظہر ہے، جہاں مختلف مذاہب اور قبائل کو ایک ہی ریاستی نظام میں امن و انصاف کے ساتھ جینے کا حق ملا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت عدل و خدمت کا بے نثال نمونہ تھی۔ مدینہ کی ریاست نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حکومت کا اصل مقصد عوامی خدمت ہے، ذاتی مفاد نہیں۔ اسی طرح معاشی میدان میں سود کی ممانعت، تجارت میں دیانت داری، اور محنت کی عظمت کا فلسفہ، آج کے معاشی مسائل کا سب سے بڑا علاج ہے۔

سیرت کا سب سے بنیادی پہلو اللہ کی بندگی اور توحید ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل کامیابی دنیاوی آسائشوں میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا میں ہے۔ عبادات اسی فلسفے کی عملی شکل ہیں جو انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے۔

یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں علمائے کرام نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فلسفے کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ برصغیر کے عظیم مفکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنے زمانے میں امت کو قرآن و سنت کی اصل روح سے جوڑنے کی تحریک اٹھائی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کی نجات صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔

ان کے بعد آنے والے علمائے کرام، جیسے شاہ عبدالعزیز دہلویؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ اور دیگر مصلحین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اشاعت کو اپنی جدوجہد کا محور بنایا۔ مدارس، خانقاہیں اور علمی مراکز سیرت کے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنے۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے برصغیر میں سیرت کانفرنسوں، میلاد النبی کے اجتماعات اور سیرت النبی پر علمی کتب کی بڑی بڑی لائبریریاں وجود میں آئیں۔

یہی کردار بعد کے دور میں علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا مودودی اور دیگر مفکرین نے بھی ادا کیا۔ انہوں نے فلسفہ سیرت کو صرف مذہبی روایت نہیں بلکہ ایک عملی اور ہمہ جہت نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔

آج کے دور کا انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود بے سکونی اور اضطراب کا شکار ہے۔ مادیت پرستی نے اسے مقصدِ حیات سے دور کردیا ہے۔ سیرت کا فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سکون صرف اللہ کی رضا اور اخلاقی و روحانی اصولوں کی پیروی میں ہے۔

انفرادی سطح پر اگر ہم سیرت اپنائیں تو ہماری شخصیت متوازن اور باوقار ہوگی۔ اجتماعی سطح پر سیرت پر عمل ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے گا جہاں عدل، امن اور محبت قائم ہو۔

فلسفہ سیرت دراصل انسانیت کی فلاح اور نجات کا فلسفہ ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور دیگر علما کی کاوشوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ امت کی اصل طاقت اور نجات کا ذریعہ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سیرت طیبہ کو محض تقریروں اور رسومات تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان کی حکمتوں کو سمجھ کر اپنی زندگی اور سماج میں نافذ کریں۔ یہی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا یقینی راستہ ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International