rki.news
(تحریر احسن انصاری)
اسلام میں قربانی ایک علامتی اور روحانی عبادت ہے جس کی بنیاد محبتِ الٰہی، تقویٰ، اطاعت اور ایثار پر رکھی گئی ہے۔ عیدالاضحیٰ کا دن مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال قربانی کی یاد دلاتا ہے، جس میں اطاعت اور اخلاص کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم ہوئیں۔
یہ عبادت نہ صرف انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے بلکہ اس کے کردار، نیت، اور معاشرتی رویے میں بھی مثبت تبدیلی لاتی ہے۔
تقویٰ، جو ہر عبادت کی بنیاد ہے، قربانی کے عمل میں مرکزی مقام رکھتا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ سے ڈرنا، اُس کی رضا کو مقدم رکھنا اور اپنی خواہشات کو اس کی مرضی کے تابع کرنا۔ قربانی کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک کرے، اپنی نیت کو خالص رکھے اور ظاہری عمل کو اخلاص کے ساتھ انجام دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔” (بخاری و مسلم). یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ قربانی کا عمل اگر ریاکاری، دکھاوے یا سماجی دباؤ کے تحت کیا جائے تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی۔ خالص نیت، اللہ کی رضا، اور تقویٰ قربانی کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اگرچہ گوشت اور خون لوگوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس نیت کو دیکھتا ہے جس کے تحت قربانی کی گئی۔
قربانی کا ایک پہلو “نفس” کی قربانی بھی ہے۔ یعنی اپنی خواہشات، انا، حسد، بغض، غرور، اور دنیاوی لگاؤ کو اللہ کی رضا کے لیے ترک کرنا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ نہیں کیا، بلکہ اپنی باپ ہونے کی فطری محبت، جذبات اور چاہت کو بھی اللہ کے حکم کے تابع کر دیا۔ یہی اصل قربانی ہے، جو نفس کی مغلوبیت سے آزادی دلاتی ہے۔
قربانی کے جانور کا گوشت صرف ذاتی استعمال کے لیے نہیں بلکہ معاشرے میں مساوات، بھائی چارے اور ہمدردی کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک حصہ غریبوں کے لیے، دوسرا رشتہ داروں اور احباب کے لیے، اور تیسرا خود کے لیے۔ یہ تقسیم ہمیں خودغرضی سے بچا کر ایثار، سخاوت اور سماجی فلاح کا درس دیتی ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں غریب افراد وہ گوشت کھاتے ہیں جو انہیں سارا سال میسر نہیں آتا۔ یہ عمل مسلم معاشرے میں فلاحی نظام کی بنیاد ہے۔
موجودہ دور میں، قربانی ایک رواج یا دکھاوے کی رسم بنتی جا رہی ہے۔ لوگ مہنگے جانور خرید کر سوشل میڈیا پر نمود و نمائش کرتے ہیں۔ اس رویے سے قربانی کی روح مجروح ہوتی ہے۔ قربانی میں جانور کی قیمت نہیں بلکہ نیت کی قدر ہے۔
اسی طرح، قربانی صرف جانور تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وقت، مال، صلاحیتیں، اور محبت بھی ان لوگوں کے لیے قربان کریں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی قربانی ہے جو آج کے معاشرتی حالات میں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو صرف جانور ذبح کرنا نہ سکھائیں، بلکہ ان کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے کردار، حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسی رضا، اور دونوں کی مانند اخلاص اور تقویٰ پیدا کریں۔ اسکولوں، گھروں اور دینی اداروں میں قربانی کا فلسفہ عملی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی جائے تاکہ یہ نسل قربانی کو ایک فیشن نہیں بلکہ ایمان کا جزو سمجھے۔
قربانی ایک ہمہ گیر عبادت ہے جو ظاہری، باطنی، انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ یہ انسان کو خود احتسابی، ایثار، عاجزی، اخلاص، اور سب سے بڑھ کر تقویٰ کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے لیے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے، اگر دل میں خلوص ہو۔
آج جب دنیا انفرادی مفاد پرستی کی طرف بڑھ رہی ہے، قربانی ہمیں ایک مرتبہ پھر اللہ کے حضور جھکنے، دوسروں کے لیے جینے، اور اپنی ذات کو اللہ کی رضا کے تابع کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
Leave a Reply