تازہ ترین / Latest
  Tuesday, March 11th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

قرض کی پیتے تھے مے

Articles , Snippets , / Tuesday, March 11th, 2025

عامرمُعانؔ

ایک تازہ خبر کے مطابق ہمارے عظیم دوست ملک چین نے مملکتِ پاکستان کو دئیے گئے اُس 2 ارب ڈالر کی رقم کو جو کہ عرصہ 2 سال کی مدت کے لئے صرف رکھنے کو دی گئی تھی ، اور جو 24 مارچ 2025 کو اپنی معیاد پوری کر رہی تھی ، کی مدتِ نمائش میں ایک سال کا مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ حکومت نے اس عمل پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس سے زر مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن پہلے ہی کی طرح مستحکم نظر آئے گی ، یعنی ہم دنیا کو یہ باور کروانے میں فخر محسوس کرتے رہیں گے کہ ابھی تک ہم بھی ان مالدار ممالک کی فہرست میں موجود ہیں جن کے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، اگرچہ یہ وہ رقم ہے جو ہاتھی کے اُن دانتوں کی طرح ہے جو کھانے کے تو نہیں صرف دکھانے کے ہی کام آتے ہیں ۔ اِس سے بہتر تو چچا غالب تھے جو ببانگِ دہل قرض لے کر اُس کی مے تو پی لیتے تھے ، جبکہ ہماری تو وہ حالت ہے کہ ان دو ارب ڈالر کی صرف خوشبو ہی سونگھ کر گزارہ کر سکتے ہیں ، لیکن خیر یہ بھی لازمی ایک بہت اچھی خبر ہے تب ہی حکومت پاکستان نے خود بھی سکھ کا سانس لیا ہے اور عوام سے بھی لمبے لمبے سکھ کے سانس لینے کی درخواست کی ہے کیونکہ اب مزید ایک سال تو اِس ہی بھروسے میں گزر جائے گا کہ ابھی تک ہماری مالی پوزیشن بہت بہتر ہے ، مزید براں آئی ایم ایف بھی ہمارے اتنے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر دیکھ کر ہم پہ اعتبار کرتے ہوئے ہم سے وعدہ کی گئی رقم بطور قرض جاری کر سکے گا ، اور ہم چچا غالب کی طرح قرض کی رقم کو اپنے پیسے سمجھ کر مے خرید سکیں گے اور کچھ دن یہ مے پی کر مستیاں بھی کر سکیں گے ، لیکن یہ خیال رہے کہ پینے اور مستیاں کرنے کی اجازت عام عوام کو ہرگز نہیں ہو گی ، کیوں کہ عام عوام تو اس بڑھتے ہوئے قرض کے بوجھ کو اتارنے کے لئے مزید ٹیکسز کا بوجھ اٹھانے کے لئے کمر کسنے پر مجبور کر دی جائے گی ۔ حکومت کی طرف سے عوام کو شائد گدھا ہی سمجھ لیا گیا ہے کہ جس پر جتنا بوجھ ڈال دیں سر جھکائے اپنے رستے پر رواں دواں رہتا ہے ، اُس کو اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس پر لادھا گیا بوجھ اُس گھاس کا ہے جو اس کا چارہ ہے یا اُس لکڑی کا ہے جس سے ڈنڈا بنا کر اُس ہی کی کمر پر رسید کیا جائے گا تاکہ وہ بوجھ کی مشقت سے نالاں ہو کر بوجھ اٹھانے سے انکار نہ کر سکے ۔ خیر عوام کو اِن مسائل سے ویسے بھی کوئی سروکار نظر نہیں آتا یوں لگتا ہے کہ عوام کے لئے نیرو چَین کی بانسری بجا رہا ہے جو شائد حکومت چین سے بنوا کر لائی ہے کہ کسی بھی لگنے والے ٹیکس پر اُف کبھی نہیں کرنا ہے اور نہ کوئی سوال کرنا ہے ۔ ویسے بھی عوام تو اپنے نان جویں کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو الو بنانے میں اتنی مصروف ہے کہ اسے یہ بھی ہوش نہیں کہ اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو آپ اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتی ۔ اب یہ حال ہے حکومت عوام کو گدھا سمجھ رہی ہے اور عوام ایک دوسرے کو الو ، اسی دوران وقتاً فوقتاً آئی ایم ایف ہمیں بندر کی طرح نچانے آ جاتا ہے ، اور اپنی فرمائشوں کی فہرست دکھا کر ہمیں مزید ناچنے پر مجبور کرتا رہتا ہے ، اس نے بھی شائد یہ گانا سنا ہوا ہے کہ ~ ناچ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا ۔ لگتا ہے عوام کو اتنی اچھی طرح بِنا چوں چرا کئے ناچ کرتا دیکھ کر آئی ایم ایف کا بھی دل لگا ہوا ہے اور وہ بھی دل پشوری کرنے نئے نئے بوجھ کی فہرست لے کر حاضری لگاتا رہتا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ بہادر ہمیں بکری اور خود کو شیر سمجھ کر دھاڑتا رہتا ہے ، جبکہ ان کی حکومت کا نشان گدھا اور ہماری حکومت کا شیر ہے ، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہو جاتا ہے ہم ہی ممیاتے رہتے ہیں اور امریکہ بہادر کو کہتے رہتے ہیں کہ حضور کا اقبال بلند ہو ۔ فی الحال تو ہماری تازہ کارکردگی پر شیر مطلب امریکہ خوش ہے اور ہماری خوب خوب پیٹھ تھپتھپا رہا ہے ، لیکن کب چھپا ہوا پنجہ پیٹھ میں گھونپ دے اِس کو شیر خود بھی نہیں جانتا کیونکہ ٹرمپ صاحب کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں ، پھر اپنی پیٹھ ٹھونک کر کہتے ہیں ہم جنگل کے بادشاہ ہیں ہماری مرضی انڈہ دیں یا بچہ دیں ، تو خیر سے اس وقت ہماری عوام بھی حیران ہے کہ آخر ہم خود کو کیا سمجھیں ، کیونکہ ہم سے بوجھ تو ہم کو گدھا سمجھ کر اٹھوایا جا رہا ہے ، بندر سمجھ کر نچوایا جا رہا ہے ، بکری سمجھ کر روز چھری دکھائی جا رہی ہے ، جبکہ ہم آپس میں ایکدوسرے کو الو بنا رہے ہیں ۔ اس میں سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمیں حکومتِ وقت بتا رہی ہے کہ چین ہمیں انسان سمجھ رہا ہے ، اس لئے اس نے انسانیت کے ناطے 2 ارب ڈالر کی رقم جو شوکیس میں رکھنے کے لئے دی تھی کی معیاد 1 سال مزید بڑھا دی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ یہ نمائشی رقم صرف رکھنے پر بھی ہمیں کچھ سود نذرانہ کے طور پر دیتے رہنا ہو گا ، لیکن چین میں اتنی انسانیت تو ہے کہ ہماری ناتوانی کو توانا دکھانے کی بھرپور مدد تو ہو رہی ہے ۔ ویسے یاد آیا کہ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم صاحب ملک میں سرمایہ کاری لانے کے وعدوں سے سجے سبز باغ دکھا کر اقتدار میں آئے تھے ، اور یہ یقین دلایا تھا کہ ملک میں خوب سرمایہ آئے گا ، کاروبار کا پہیہ گھومے گا ، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ، گھر گھر خوشحالی آئے گی اور ہم دنیا کی نظروں میں ایک باوقار ملک کے باوقار شہری تصور ہوں گے ۔ اِس وعدے کا حشر فی الحال محبوب کے اُس وعدے جیسا ہے جس کا ایفا ہونا شرط نہیں ہے ۔ ملک کی ترقی کبھی بھی قرضوں کا بوجھ بڑھانے سے نہیں ہوتی بلکہ ملک میں کاروبار کا پہیہ تیز تر گھمانے سے ہوتی ہے ، بہت زیادہ وزارتوں کے بوجھ سے نہیں کفایت شعاری اختیار کرنے سے ہوتی ہے ، عدالتوں میں انصاف کے لئے بھٹکتے سائلوں سے نہیں بلکہ انصاف کرتی عدالتوں سے نکلتے مجرموں کے خوف زدہ چہروں سے ہوتی ہے ، ملک میں بد امنی سے نہیں امن و امان سے ہوتی ہے ۔ وگرنہ چچا غالب کی طرح قرض لیتے رہیں گے اور حالات بدلنے کے خواب دیکھ دیکھ کر کہتے رہیں گے
~ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوئے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International