تازہ ترین / Latest
  Sunday, January 5th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“قصہ ایک سال نو مبارک کا”

Articles , Snippets , / Friday, January 3rd, 2025

تحریر: سلیم خان
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکہ

سخت سردی کے دن تھے دسمبر کے آخری ایام گزر رہے تھے اور چند ہی دنوں بعد سالِ نو کا آغاز بھی ہونا تھا۔
میں ان دنوں کراچی میں کراچی بلڈنگ اتھارٹی کے محکمہ آفیسر کی حیثیت سے وہاں کی ایک مضافاتی بستی میں بطور تعمیراتی آفیسر ٹہرا ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی ایک مضافاتی بستی کی شکل میں آباد ہو رہا تھا اور یہاں مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں ترقیاتی کام جاری تھا جو مکانات وہاں پہلے سے موجود تھے وہ کافی دور دور بنے ہوئے تھے۔
سخت سردی کی وجہ سے یہاں مغرب کے بعد سے سناٹا ہوجاتا تھا۔ یہ ماحول میرے لیئے سخت اذیت کا باعث تھا۔ چونکہ ہم سیر سپاٹے والے آدمی تھے اور حالات چاہے جیسے بھی ہوں وہ ہمیں سیر سپاٹے سے نہیں روک سکتے تھے ہم روز معمول کی طرح گھر سے نکلتے اور سیر سپاٹے کے بعد واپس آجاتے۔ اس دن بھی ہم نے سردی سے حفاظت کے لئے ایک لمبا کوٹ جسے عام طور اوور کوٹ کہتے ہیں پہنا اور ساتھ گلے میں مفلر اور سر پر اونی کیپ لگا کر باہر نکل کھڑے ہوئے۔ سگریٹ سلُگانے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ماچس موجود نہیں تھی۔ ہم نے گھر جاکر ماچس لانے سے بچنے کے لئے تھوڑے فاصلے پر ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھے ایک صاحب کو آواز دی جو خود منہ موڑے سگریٹ پینے میں مصروف تھے۔ “بھائی صاحب ماچس ہوگی آپ کے پاس؟” ہم نے قدرے دھیمے لہجہ میں کہا۔۔۔
یہ سننا تھا کہ ان صاحب نے مڑے بغیر ٹیلے پر سے چھلانگ لگائی اور سر پٹ دوڑ گئے۔۔۔۔ وہاں پر روشنی کافی مدہم تھی اس لئے ہم دیکھ نا سکے کہ۔۔ وہ کون ہے خیر صاحب جو بھی تھا ہم نے ان کی اس حرکت کو نظر انداز کیا اور خاموشی سے چل دئے۔ تھوڑا دور ہی ایک جھونپڑ ہوٹل سے چائے پی لالٹین کی روشنی میں صبح کا اخبار ایک بار پھر پڑھا اور اس دوران چند سگریٹ بھی پھونک ڈالے۔۔۔
ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر واپس گھر ہو لئے۔۔
اب روزانہ یوں ہونے لگا کہ ہم جیسے ہی گھر سے نکلتے ٹیلے یا اس کے پاس بیٹھے لوگ اٹھتے اور ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوتے ۔۔۔
ایک صبح ہم معمول کی طرح اُس جگہ پہنچے جہاں مزدور کوارٹرز کی تعمیر کا کام کر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ایک مزدور ہمارے پاس آیا اور بولا
کہ صاحب آپ سے ایک بات کہیں برا تو نہ مانو گے؟۔۔۔ہم نے اجازت دی کہ کہیں کیا بات ہے۔۔۔
وہ بولے صاحب ذرا رات کو گھر سے نکلنے میں احتیاط کیا کیجیئے۔۔۔
ہم نے کہا مشورے کا بہت بہت شکریہ مگر آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔؟
وہ بولے۔۔۔۔ سنا ہے آپ کے گھر کے آس پاس سے ایک سر کٹے گورے کا گزر ہوتا ہے۔۔۔
اس نے ایک سانس میں یہ سب کہا اور مجھے دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں بلا کی وحشت تھی۔۔۔
مگر آپ کو یہ سب کیسے پتا۔۔؟ ہم نے حیرت سے کہا۔۔۔
چار پانچ دن قبل گلو بابا آپ کے گھر کے نزدیک جو ٹیلا ہے وہاں بیٹھے بیڑی پی رہے تھے کہ اس نے آکے ماچس مانگی۔۔۔ وہ بولا
اچھا تو پھر آگے کیا ہوا؟ ہم نے مسکرا کر کہا
پھر صاحب وہ تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایک دن تو ہم سب مزدوروں نے بھی ٹیلے کے پیچھے سے چھپ کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ آپ کے گھر کے آس پاس سے ہی نکلتا ہے۔۔۔
وہ خوفزدہ لہجہ میں بولا۔۔۔
ہمیں ایک ہی لمحہ میں ساری بات سمجھ آچکی تھی مگر ہم مسکرا کر خاموش رہے۔۔۔
آپ کو کیسے پتا چلا کہ یہ کسی گورے انگریز کا سر کٹا بھوت ہے۔۔۔ہم نے کہا؟
ارے صاحب سنا ہے آزادی کی لڑائی کے بعد سے یہاں کے لوگ موقع پا کر گوروں کو قتل کرکے یہیں دفنا دیا کرتے تھے ممکن ہے ان میں سے کوئی بھوت ہو۔۔۔ وہ بولا۔۔
آپ کو معلوم ہے یہ بستی یہاں لوگوں کو بسانے کے لئے تعمیر کی جارہی ہے اگر آپ لوگ ایسی توہم پرستانہ باتیں پھیلائیں گے تو یہاں کون آکے بسے گا۔۔۔ ہم نے کرخت لہجہ میں کہا۔
مگر ہمارے لہجہ سے زیادہ اس پر خوف کا اثر تھا کہنے لگا صاحب ایک پورا وفد آپ سے اس سلسلے میں بات کرنے آنے والا ہے کہ یہ بستی تب تک نہ بسائی جائے جب تک اس سرکٹے کا معاملہ حل نہ ہوجائے۔۔وہ یہ کہہ کر چل دیا۔۔۔اور عین 20 منٹ بعد بہت سارے لوگوں کا ایک وفد ہمارے پاس آیا اور اسی سر کٹے کو دیکھنے کی اپنی اپنی شہادتیں دینے لگا۔۔ میں معاملہ سمجھ چکا تھا۔۔۔ سوچا کہ اگر انھیں سچ بتا دیا تو یہ یقین نہیں کریں گے کیونکہ ان لوگوں میں توہمات رچ بس چکی تھیں جو اس کے خاتمہ کے بغیر ان کے دل و دماغ سے نکالی نہیں جاسکتی تھی۔۔
میں نے کہا کل نیا سال شروع ہو رہا ہے ان شاءاللہ آج رات 12 بجے ہم مل کر اس سر کٹے کو اس کے انجام تک پہنچائیں گے۔
وہ سب ڈرے تو میں نے کہا آپ لوگ صرف اس ٹیلے پر ہی رہیں گے سر کٹے کو قابو کرنے کا کام میرا ہے ۔۔ وہ لوگ بادل نخواستہ تیار ہوئے اور اپنے اپنے گھر کو ہو لیئے۔۔۔
میں اپنے گھر آیا اور اردگر کا جائزہ لیا اچانک میری نظر چھت پر لگے بجلی کے اس بلب پر پڑی جو ایک راڈ کے زریعہ تھوڑا سا آگے کرکے اس لئے نصب کیا گیا تھا تاکہ اس کی روشنی سے دور کے لوگ بھی استفادہ کرسکیں۔۔ میں پورا معاملہ بھانپ گیا تھا کہ میں جو اوور کوٹ مفلر اور ٹوپی پہن کر نکلتا ہوں، اس بلب کی روشنی دور تک اس کا ایک ہیلولہ بنادیتی ہے چونکہ لوگ اندھیرے میں کھڑے ہوتے ہیں اس لئے ان تک میری شکل کے بجائے صرف ہیولہ پہنچتا ہے جسے وہ سر کٹا سمجھتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں۔ میں نے اپنا اوور کوٹ ایک بڑی لکڑی کے ساتھ باندھا اور اس میں جہاں تک ممکن ہوا پرانے کپڑے ٹھونس کر ایک مجسمہ کی شکل دے دی۔ اور باہر آکر لوگوں کا انتظار کرنے لگا ٹیلے کی طرف میری توقع سے زیادہ لوگ جمع ہوچکے تھے جیسے ہی اندھیرا ہوا میں نے وہ مجسمہ ایک جگہ نصب کیا اور اندر چلا گیا ۔۔ اندر آکر میں نے ایک لکڑی اور کپڑے کی مشعل تیار کی پھر کچھ دیر بعد باہر کا بلب روشن کردیا جس کی وجہ سے میرا وجود ایک ہیولہ یا بھوت کی شکل اختیار کر جاتا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد باہر سے “وسل” بجنے کی آواز سنائی دینے لگی جو اس بات کا اعلان تھا کہ وہ سر کٹا آگیا ہے ۔۔۔میں نے اس مشعل کو روشن کیا اور باہر آگیا مجھےدیکھ کر لوگ شور مچانے لگے اور مجھے اپنی حفاظت کرنے کا کہتے رہے ۔۔۔
میں آگے بڑھا اور اور مشعل سے اوور کوٹ کو آگ لگادی جس سے وہ کچھ ہی دیر بعد زمین بوس ہوا تو میں اسے ڈنڈنے سے پیٹنے لگا ۔۔۔ مجھے دیکھا دیکھی لوگ بھی امڈ آئے اور اس جلتے مجسمہ کو پیٹنے لگے۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد اس مجسمہ ایک خاک کر شکل اختیار کرگیا اور لوگ خوشی سے ناچنے لگے۔۔۔
کافی دیر تک سر کٹے کو مارنے کا جشن جاری رہا۔
میں نے گھڑی میں وقت دیکھا تو رات کے 12 بج چکے تھے میں نے سب کو اعلانیہ سالِ نو کی مبارک دی۔۔
صبح سالِ نو کی یکم جنوری کے ساتھ ہی میری اُس بہادری کا قصہ دور دور تک پھیل چکا تھا جو میں نے اپنے قیمتی اوور کوٹ کو اپنے ہاتھوں جلا کر حاصل کی تھی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International