Today ePaper
Rahbar e Kisan International

قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے

Articles , Snippets , / Tuesday, July 15th, 2025

rki.news

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
انسان اشرف المخلوقات ہے۔اس کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔حسنِ اخلاق معراج انسانیت ہے۔کلام اقبال کے آٸینہ میں اس کی عظمت اور معراج کا تذکرہ تو حسین الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے(اقبالؒ)
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو آنسو اللہ کے حضور سجدے کی حالت میں بہتے ہیں انہیں فرشتے موتی سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں۔اللہ کریم ان موتیوں کو ضاٸع نہیں فرماتے ۔اعمال کا دارومدار چونکہ نیت پر ہے اس لیے اس کی پاکیزگی سے راستے بھی صاف ملتے ہیں۔رات کی تاریکی میں بندہ مومن اللہ کریم کے حضور سجدہ ریز ہو کر بحرِ عصیاں سے بچنے کی التجا کرتا اور آنکھوں سے اشک بہتے ہیں تو عجب کیفیت طاری ہوتی ہے۔بندہ مومن کے دل کی حالت تبدیل ہوتی ہے اور قربتوں کا تسلسل شروع ہوتا ہے۔آنسو بہانا اللہ کریم کے حضور گناہوں کی معافی کا طالب بھی ہوتا ہے۔وہ منظر کتنا خوبصورت اور حسین و جمیل ہوتا ہے شب کے اندھیروں میں الفت اور محبت کے جذبات سے سرشار بندہ مومن اپنے رب کریم کی شان کریمی کا اعتراف کرتے نادم ہوتا ہے۔اشکوں کی لڑی اللہ کریم کے حضور کس قدر شرف قبولیت حاصل کرتی ہے بقول شاعر:-
ایک سمندر ہے درد دل میں
اور رونے کو صرف ”دو“آنکھیں
انسان جب پیدا ہوا تو رب کریم نے اس کی فطرت میں خوشی اور غم کے جذبات و احساسات پنہاں رکھ دیے۔غم اور دکھ کی کیفیت میں انسان جب آنسو بہاتا ہے تو عجب سلسہ چل پڑتا ہے۔بقول شاعر:-
آنکھیں سوکھی ہوئی ندیاں بن گئیں
اور طوفاں بدستور آتے رہے
ماہرین کے مطابق اشکوں کی برسات آنکھوں سے ہوتی ہے تو انسان کے اندر کے جذبات و احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔
بات طویل ہو گئی۔آنسو اور اشک بہانے سے انسان کے دل میں سکون اور راحت پیدا ہوتی ہے۔زندگی چونکہ عارضی سفر ہے اس میں جو آنسو اور اشک نکلتے ہیں وہ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔اور سب سے زیادہ قیمتی آنسو اللہ کے خوف سے نکلنے والے آنسو ہوتے ہیں۔محبت الٰہی میں بہنے والے اشک بہت قیمتی اور انمول ہوتے ہیں۔پیارے نبی اور رسولؐ اپنی امت کے لیے رب کریم کے حضور کثرت سے آنسو بہاتے تھے۔اس کے تناظر میں زندگی کا جائزہ لیا جاۓ تو عہد نو میں انسان مال و دولت کی کثرت سے دل بہلانے کی ناکام سی کوشش کرتا ہے۔مگر بے چینی کے عالم میں مارا مارا پھرتا ہے۔بقول شاعر:-
کیوں پھرتا ہے بن بن میں
ڈھونڈ اسے اپنے من میں
زندگی کا اصل راز تو انسان کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔صدقِ دل کے چراغ روشن ہونے سے زندگی کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔سخاوت٬قناعت اور عفوودرگزر سے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی اور قوت برداشت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔مقصد حیات کی تکمیل کی خاطر گوشہ تنہاٸی میں بندہ مومن کو اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے کہ حسنِ اخلاق اور عفوودرگزر کے مقام پر ہم کہاں کھڑے ہیں؟انسان کی تخلیق تو رب کریم کی عبادت٬اطاعت رسولؐ اور معاملات زندگی قرینے سے انجام دینا ہے۔ایک دوسرے کو معاف کرنا اور صلہ رحمی کا سلوک روا رکھنا معراج انسانیت ہے۔اس عہد میں جہاں انسان کو جسمانی امراض کا سامنا ہے وہیں قلبی امراض حسد٬بخل اور بغض سے زندگی اجیرن ہے۔ہر طرف جوش انتقام میں انسان ایک دوسرے کی زندگی کے چراغ گل کرنے کے درپے ہیں۔سماجی امن تباہ و برباد ہے۔نیکی اور بھلاٸی کا تصور انسان بھلا کر ذاتیات کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہے۔حالانکہ انسان کا مقصد حیات تو بہت جامع اور اکمل ہے۔اس ضمن میں یہ بات بدستور کہی جا سکتی ہے کہ مقام شوق کے تقاضے تو یہی ہونے چاہیئں کہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر رب کریم کے حضور اظہار ندامت کیا جاۓ۔خوشی کے موقع پر جو اشک بہتے ہیں ان کا مقام اور ہے جو اشک گوشہ تنہائی میں بہتے ہیں وہ بہت قیمتی گوہر ہیں۔اس لیے زندگی کے تقاضے یہی ہیں کہ انسان عاجزی اور انکساری کی راہ پر چلنے کی کوشش کرے۔محسنِ انسانیتؐ کی زندگی مشعل راہ ہے۔اس سے سبق حاصل کرتے سفر حیات طے کرنا چاہیے۔جدت پسندی کے فسوں میں اسیر انسان تلاش محبت اور امن کے لیے سرگرداں ہیں۔جب تک خود شناسی اور خدا شناسی کے جذبات و احساسات سے آگاہی نہیں ہوتی اس وقت تک زندگی بےکار ہے۔عصر حاضر میں نئی ایجادات اور سائنسی ترقی کے اثرات کا جاٸزہ لیا جاۓ تو انسان کے پاس اپنی ذات اور مقصد حیات کے سمجھنے کے لیے وقت ہی نہیں۔جب کہ اصل مقصد تو درد دل ہے اور اپنی خودی کی تربیت ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International