rki.news
ہارون رشید قریشی
10 فروری 1986 کو میں پاکستان جا رہا تھا۔ میری شادی 16فروری کو طے پائی تھی۔ جب میں نے اپنا پاسپورٹ قطر سے خروج کے لئے مرحومہ مادام سوزان کو دیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ میں نئے پاسپورٹ کے اجراء کے لئے سی رنگ روڈ پر واقع پاکستانی سفارتخانہ پہنچا۔اس وقت میں بہت ڈرا ہوا تھا مگر دل میں ایک امید تھی کہ اگر اندرابی صاحب سے ملاقات ہو گئی تو پھر میرا کام فوراً ہو جائے گا۔ اندرابی صاحب سے ملاقات ہونے پر میں نے انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اگر مجھے پاسپورٹ جلد مل جائے تو میں اقامہ نئے پاسپورٹ پر ٹرانسفر کروا کر آج ہی پاکستان چلا جاؤں گا۔ آپ نے متعلقہ سٹاف کو ہدایت کی کہ ہارون نے آج ہی پاکستان جانا ہے آپ اسے ابھی پاسپورٹ بنا دیں اس نے ارنجنٹ فیس جمع کرا دی ہے۔ جن صاحب کو ہدایت کی گئی تھی ان صاحب نے اپنے روٹین لہجے میں کہا کہ سر ارنجنٹ پاسپورٹ بھی دوپہر دو بجے کے قریب ہی مل سکے گا۔ اس کے بعد اندرابی صاحب کی وہ آواز جو آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے، انہوں نے کہا تھا آپ اسی وقت پاسپورٹ تیار کر کے لائیں دفتری کاروائی بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔ مجھے تیس منٹ کے اندر ہی پاسپورٹ مل گیا ۔ میں نے اقامہ نئے پاسپورٹ پر ٹرانسفر کروایا اور رات کی فلائیٹ سے پاکستان چلا گیا۔ یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے اندرابی صاحب کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ کاش سب لوگ اس طرح کی مثبت سوچ رکھتے تو آج ہماری حالت ایسی نہ ہوتی۔ ابھی کچھ دن پہلے جب مجھے اندرابی صاحب کے قطر آنے کا علم ہوا تو فوراً ملاقات کا ارادہ کیا۔ مصروفیت کی وجہ سے رات ساڑھے گیارہ بجے ملاقات کا وقت طے پایا۔ ہم وقت کے مطابق محمد خان صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ ہلکے پھلکے انداز میں ہماری بات چیت ہوئی جو پیش خدمت ہے۔
الحمدللہ رب العالمین میرے لیے اور قطر میں بسنے والے تمام پاکستانیوں کے لیے یہ ایک خوشی کا موقع ہے کہ ہمارے ساتھ قطر میں اپنی سفارتی زندگی کی شروعات کرنے والے محترم اشتیاق حسین اندرابی آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انہوں نے چالیس سال قبل اپنی بیرون ملک پوسٹنگ کا آغاز قطر میں پاکستان کے سفارتخانے سے کیا تھا۔ سال 1989 میں قطر چھوڑنے کے باوجود وہ اب بھی یہاں موجود پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں میں سینکڑوں سفارتکار آئے اور چلے گئے مگر چند ہی ایسے ہیں جن کو نہ قطر بھول سکا اور نہ قطر میں رہنے والے پاکستانی فراموش کر سکے۔ کیونکہ ان کے ساتھ نہایت خوشگوار یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ تمام حضرات اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور نرم طبعیت کی وجہ سے آج بھی قطر میں رہنے والے پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں اور ان میں ایک ممتاز نام جناب اندرابی صاحب کا ہے ۔
اندرابی صاحب سے ہوئی گفتگو آپ قارئین کی نظر ہے۔
ہارون۔ قطر سے آپ کا تعلق کیا ہے۔
اندرابی صاحب! قطر میری پہلی محبت ہے، کیونکہ میں نے اپنی پہلی پوسٹنگ قطرسے شروع کی تھی۔ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی اور قطری دوستوں نے مجھے بے حد محبت دی۔ یہ وہ محبت ہے جو کبھی بھی میرے دل سے نہیں نکل سکی،بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مزید گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد بھی آپ دوستوں سے یہ تعلق آج تک قائم ہے۔ قطر آ کر ایسا محسوس ہوا ہے جیسے میں اپنے گھر واپس لوٹ کر آیا ہوں۔ خاص طور پر جب میں ایئرپورٹ پر اترا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قطر کس حد تک ترقی کر چکا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے ایئرپورٹس دیکھے ہیں ، مگر قطر کا ایئرپورٹ سب سے خوبصورت اور منظم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، برطانیہ، مڈل ایسٹ، ارجنٹینا، ناروے اور یورپ کے کئی ممالک میں کام کیا مگر قطر کے ایئرپورٹ اور دوحہ شہر جیسا خوبصورت اور منظم کوئی دوسرا شہر نہیں دیکھا۔ کورنش کی سیر اور دوحہ کی رونق نے بھی مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں سے میں نے اپنی سفارتی زندگی کی شروعات کی تھیں۔ اس وقت شہر کی سب سے بڑی عمارت ہوٹل شیرٹون کی بلڈنگ تھی جو اب اس کے گرد و نواح میں تعمیر شدہ نئی بلند و بالا عمارتوں کے سامنے ایک چھوٹی سی عمارت دکھائی دیتی ہے۔ آج دوہا ایک جدید اور تیز رفتار ترقی کرنے والا شہر بن چکا ہے۔ قطر کی ترقی میں پاکستانی کمیونٹی کی شراکت داری کا ذکر قطری حکمران ہماری ملاقاتوں میں بھی کیا کرتے تھے۔ جس پر ہمیں آج بھی فخر ہے۔
ہارون، کچھ پرانے دوستوں کے بارے میں بھی بتائیں!
اندرابی صاحب! جن قریبی دوستوں کے ساتھ میرے تعلقات بہت مضبوط رہے ہیں ان میں عبدالحمید مفتاح، چوہدری محفوظ، اور عبدالمجید قریشی جیسے بزرگ شامل ہیں جو اب دنیا میں نہیں ہیں۔ اندرابی صاحب نے دوران گفتگو محمود صاحب یونیسکو، سیف الرحمن قطر ریڈیو ، محمد عتیق دوحہ بنک، قاضی اصغر اور محمد شاہد الفردان کے ساتھ حالیہ ملاقات کا ذکر بھی کیا۔ آپ میرے برخوردار ہیں اپ کا میرا تعلق جموں کشمیر سے ہے۔ محمد خان صاحب کے ساتھ ہمارا قریبی تعلق ہے اور وہ میرے لئے خاندان کے ایک ممبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں یہاں سے جانے کے بعد اب دوبارہ دوسری مرتبہ قطر آیا ہوں تو میں خان صاحب کے پاس ہی ٹھہرا ہوا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشک پرانے لوگ چلے گئے ہیں لیکن جو نئے لوگ آئے ہیں وہ بھی بہت اچھے ہیں ۔ انہوں نے پرانے اچھے لوگوں کی جگہ لے لی ہے۔ اندرابی صاحب نے کہا کہ عموما سفارتکار جہاں بھی جاتے ہیں وہاں ہی کے ہو کر جاتے ہیں مگر قطر ان کے لیے ہمیشہ خاص رہا ہے کیونکہ یہاں ان کی پہلی پوسٹنگ تھی۔
ہارون! پاکستانی ایمبیسی اور کمیونٹی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی بتائیں!
اندرابی صاحب! میری قطر پوسٹنگ کے دوران ہماری ایمبیسی کی نئی بلڈنگ جو ویسٹ بے میں تھی۔ میری نگرانی میں تعمیر کی گئی تھی، اس میں شفٹ کرنا ایک بہت بڑا مرحلہ تھا۔ پرانی ایمبیسی کو جو سی رنگ روڈ پر واقع تھی ویسٹ بے منتقل کرنے میں میں نے اہم کردار ادا کیا۔ میں قطر میں پاکستانی سفارت خانے میں قائم مقام سفیر کے فرائض بھی انجام دیتا رہا ہوں۔ ہم جب پہلے دن نئی بلڈنگ میں گئے تو سرفراز خانزادہ اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کی جس کی امامت محمد خان صاحب نے کی تھی۔ ہم نے باقاعدہ قرآن پاک کی تلاوت سے نئی بلڈنگ میں کام کا آغاز کیا تھا۔ اس دور میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہوئے اور ہم نے محسوس کیا کہ پاکستانی کمیونٹی سفارتخانے کے لیے ایک سرمایہ اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہمارے سفارتخانے کے تعلقات کی بنیاد احترام مدد اور محبت پر قائم ہے۔ کمیونٹی نے ہمیشہ ایمبیسی کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ قطر میں پاکستانیوں کا تحفظ اور فلاح و بہبود سفارتخانے کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ میرے خیال میں، کمیونٹی کا تعاون سفارتی مشن میں کامیابی کی بڑی وجہ ہے۔
ہارون، دوسری پوسٹنگز اور سفارتی تجربات کا بھی ذکر ہو جائے!
اندرابی صاحب! میری سفارتی زندگی کی دیگر پوسٹنگز نہایت دلچسپ اور چیلنجنگ رہیں۔ نیویارک میں میرا تجربہ خاص طور پر بہت یادگار رہا، جہاں میں نے عربی زبان میں مہارت حاصل کی اور مختلف بین الاقوامی مسائل پر کام کیا۔ نیویارک میں میں نے عرب ممالک کے سفارتکاروں کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے، عربی زبان کو سیکھا اور اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنایا۔ سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف پاکستان کی مدد کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ اس دوران وہاں سونامی کی تباہ کاریوں میں بھی معاونت فراہم کی گئی۔ میں نے پاکستان اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا جسے سری لنکا کی حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے۔ بعد ازاں میری پوسٹنگ ارجنٹینا، چلی، یوراگوئے، ایکوڈور اور پیرو میں ہوئی۔ وہاں بھی پاکستان کی پالیسیوں اور تجارتی روابط کو مضبوط کرنے میں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ انہی خدمات کی وجہ سے پاکستان نے لاطینی امریکہ میں ایک نئی پہچان بنائی۔ اس خطے کے ممالک کے ساتھ کئی تجارتی معاہدے کئے گئے۔ سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہوا پاکستانی مصنوعات کی نمائش کے ذریعے برآمدات کو فروغ حاصل ہوا۔ یورپ میں پوسٹنگز خاص طور پر ناروے میں بھی نمایاں رہیں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی مدد اور سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کیا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فارن سروس اکیڈمی میں تدریسی خدمات انجام دیں جہاں میں نے نئے سفارتکاروں کی تربیت کی اور یوں اپنی عملی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔
ہارون، آپ کے ذاتی تجربات اور سفارتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں!
اندرابی صاحب! میں نے اپنی سفارتی اور پیشہ وارانہ زندگی کو بڑے اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ الحمدللہ میں اپنی سفارتکاری سے مکمل مطمئن ہوں۔ کبھی پچھتاوے کا احساس نہیں ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت نوازا ہے۔ مجھے اپنے کام کے دوران عوام سے ملنے والی محبت اور عزت ہمیشہ یاد رہتی ہے جو میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
ہارون، پاکستانی کمیونٹی کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔
اندرابی صاحب! میں پاکستانی کمیونٹی سے نہایت پرخلوص اور دل سے درخواست کرتا ہوں کہ قطر یا دنیا کے کسی بھی ملک میں آپ ہوں، اپنی شناخت کو صرف ایک پاکستانی کے طور پر برقرار رکھیں۔ آپ کی شناخت کبھی بھی صوبہ، زبان، یا سیاسی جماعت کے نام سے نہیں ہونی چاہیے بلکہ آپ کی شناخت صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہے۔آپ ایک متحد قوم کے سفیر ہیں۔ اس لیے اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری اور عزت کے ساتھ نبھائیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ میزبان ملک کے قوانین اور ثقافت کا احترام کریں۔ اپنی محنت اور دیانتداری سے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے ملک کا بھی نام روشن کریں۔ قطر میں پاکستانی کمیونٹی نے اپنی محنت، دیانت اور قربانیوں سے وہ مقام حاصل کیا ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ خاص طور پر ہمارے پختون بھائیوں کی محنت اور قربانیوں کی تعریف ضروری ہے جو گرمی اور رمضان کے دنوں میں بھی
سڑکوں پر کام کر کے قطر کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ قطر کے حکمرانوں کی جانب سے پاکستانی کمیونٹی کی تعریف کو ایک بڑا اعزاز قرار دیا گیا ہے جو پاکستانیوں کے لیے فخر کا باعث ہے۔ پاکستانی کمیونٹی قطر کی ترقی میں بنیادی ستون کی طرح ہے۔ انجینئرز، تاجروں، حکومتی ملازمین، اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں نے نہ صرف ذاتی طور پر ترقی کی بلکہ میزبان ملک کی ترقی میں بھی بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ اس لیے ان سے امید کی جاتی ہے کہ یہ محنت اور جذبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ مزید برآں پاکستانی کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ اپنے وقار اور عزت کو برقرار رکھے کیونکہ وہ یہاں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہمیں چاہیے کہ ہم اس برادر ملک میں جو کچھ بھی ہمیں خاصل ہوا ہے، اپنی خدمات بہترین انداز سے انجام دیں اور اس کا حق ادا کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ان کا پیغام صرف کام کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستانی اپنے دلوں میں اپنے ملک کی محبت اور جذبہ برقرار رکھیں کیونکہ بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی اپنی قوم کا سفیر ہے۔
ہارون، نوجوانوں اور آئندہ نسلوں کے لیے پیغام!
اندرابی صاحب! نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں اور ملک کی خدمت کریں۔ اندرابی صاحب نے مزید کہا کہ ہر پاکستانی کو اپنی شناخت اور وقار کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ بیرون ملک ہر پاکستانی اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی جڑوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور اپنے ملک کی خدمت کو سب سے بڑی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نوجوان سفارتکار بھی اسی جذبے اور دیانتداری سے کام کریں گے جیسے انہوں نے اپنی زندگی میں کیا۔
ہارون، ذاتی شکرگزاری اور زندگی کا فلسفہ!
اندرابی صاحب! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی زندگی کو بہت سیٹسفائنگ اور ریوارڈنگ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں اگر کوئی غلطی ہوئی بھی تو وہ معمولی سی تھی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے کام کو ایمانداری سے کیا۔ مجھے اپنی زندگی میں بہت سے اچھے لوگوں سے ملاقات کرنے کے مواقع ملے جنہوں نے ان کی خدمات کو سراہا اور یاد رکھا۔ یہ ان کے لیے سب سے بڑی خوشی اور تسلی کا باعث ہے۔
باتوں میں وقت کا احساس ہی نہیں رہا ہم نے خان صاحب سے اجازت طلب کی اور جاتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ شکر ہے اندرابی صاحب سے ملاقات ہو گئی ، کیونکہ اگر آج اندرابی صاحب سے ملاقات نہ ہو پاتی، تو شاید یہ ملال ساری زندگی کے لئے میرے ساتھ رہتا کہ پتہ نہیں اب زندگی کے کس موڑ پر اندرابی صاحب سے ملاقات ہو سکے گی، وقت ریت کی طرح ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
جون 24 ,2025 دوحہ قطر۔
Leave a Reply