rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
ماہرین کے مطابق قوت فیصلہ سے مراد حقائق اور معلومات کی جانچ پڑتال کے بعد مضبوط اور پائیدار فیصلوں سے حسنِ معاشرت کی رعنائی میں اضافہ کرنا ہے۔معاشرے میں بسنے والے معززین اور بزرگان کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ جس مسئلہ یا معاملہ پر فیصلہ کریں وہ مضبوط ہو۔فیصلے وہی مضبوط اور جاندار ہوتے ہیں جن میں اجتماعیت کی راۓ شامل ہو۔باہمی اتفاق اور اتحاد سے فیصلے انسانیت کی بہتری اور فلاح کے لیے ٹھوس ثابت ہوتے ہیں۔بروقت ہونے والے فیصلے اہمیت رکھتے ہیں۔اور سماج میں امن و امان کی بہتری کے لیے مثبت فیصلوں کے اثرات بھی خوشگوار ہوتے ہیں۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی معاملہ میں فیصلہ سے قبل اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔اچھی راۓ اور تجاویز کا احترام کرنا چاہیے اور قوت فیصلہ سے اچھے معاملات طے کیے جائیں تو بہتری پیدا ہوتی ہے۔یہ بات مسلمہ ہے کہ سماجی ترقی اور معاشرتی قیام امن میں اچھے فیصلے تاریخ ساز کردار ادا کرتے ہیں۔انسان کا مقصد حیات ہی مل جل کر رہنا اور آسانیاں پیدا کرنا ہے۔شفقت اور محبت کی فضا کو پروان چڑھانا ہے۔اللہ کریم نے انسان کو جہاں بہت ساری خوبیاں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں وہیں قوتِ فیصلہ جیسی خوبی بھی عطا فرمائی ہے۔معاشرے میں افراد باہمی اخوت و محبت سے مل جل کر رہتے ہیں تو الفت کے پھول کھلتے ہیں اور نفرت کی دیواریں گرتی ہیں۔انسان چونکہ باشعور ہے ۔اچھے اور برے میں تمیز کی اہلیت رکھتا ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین اسلام محبت کے آئین کا نام ہے۔تعلیم ہی ایک مسلسل عمل ہے جس سے انسان کے رویہ و کردار میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔تعلیم چونکہ شعور بیدار کرتی ہے اس لیے قوت فیصلہ میں رنگینی اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔واضح رہے تشکیل معاشرہ اور سماج کی ترقی میں قوت فیصلہ کا کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔زندگی کو پرلطف اور پرامن بنانے کے لیے اچھے اور مضبوط فیصلے ناگزیر ہوتے ہیں۔آداب زندگی کا خیال رکھنااور ٹھوس فیصلے باہمی اعتماد سے کرنا معاشرتی امن کی روح ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے سے زندگی کا تصور حسین اور دلکش ہوتا ہے۔ایک مومن مسلمان کی ذمہ داریاں بھی کچھ معنی رکھتی ہیں۔جو لوگ پنچائیت اور جرگہ میں ہونے والے فیصلوں پر کاربند ہوتے ہیں وہ کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں۔منافقت سے معاشرے اور سماج تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔منفی سوچ سے معاشرتی امن ہی خراب نہیں ہوتا بلکہ نفرتوں کے چراغ روشن ہونے سے بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ایفاۓ عہد سے زندگی خوبصورت ہوتی ہے۔انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔جو لوگ قوت فیصلہ سے کام لیتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ راۓ تبدیل کرتے رہتے ہیں وہ ناکام تصور ہوتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا قلب کیسے روشن ہوتا ہے؟اس کا جواب بھی تو اتنا خوبصورت ہے کہ اچھے فیصلے کرنے اور قوت فیصلہ سے کام لینے سے جہاں افراد کا اعتماد بڑھتا ہے وہیں انسان کا اپنا دل بھی مطمئن اور روشن ہوتا ہے۔زندگی پرلطف اور امن کی عملی تصویر ہوتی ہے۔رب کریم کا بہت بڑا احسان بھی ہے کہ انسان کے اندر قوت ارادہ ٬ہمت اور بھی بہت سی خوبیاں پنہاں رکھی ہیں۔ان کا استعمال درست خطوط پر کیا جاۓ تو انسان معراج انسانیت پر فائز ہوتا ہے۔یقین کامل اور مستقل مزاجی سے کیے جانے والے امور اور فیصلے بابرکت ہوتے ہیں۔جب انسان منفی رویوں کو ترک کرتا ہے تو کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔زندگی کا مقصد تو اجڑے ہوۓ دلوں کو آباد کرنا اور اللہ کریم کی رضا کا حصول ہے۔حسنِ ادب کی تعلیم سے زندگی کا چمن سنورتا ہے۔اصلاحِ نفس کی ضرورت انسان کو ہر وقت رہتی ہے۔غرور اور تکبر کے ماحول کے منفی اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنا ہی عاقبت اندیشی ہے۔قوت فیصلہ کے فقدان سے معاشرتی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اچھے فیصلوں کے لیے اچھی قوت فیصلہ درکار ہوتی ہے۔جن لوگوں کی قوت فیصلہ کمزور ہوتی ہے وہ کمزور شخصیت اور کردار کے مالک ہوتے ہیں۔فیصلہ سازی کے جوہر سے معاشرتی زندگی کی عبارت میں رنگ آمیزی کرنے والے لوگ عظیم ہوتے ہیں۔عصری ضروریات کے آٸینہ میں دیکھیں تو فیصلہ سازی کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔قوت برداشت سے کام لینے اور اچھے فیصلے صادر کرنے سے انسان کے وقار اور کردار مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔عملی زندگی میں ہر موڑ پر اور ہر معاملے پر قوت فیصلہ سے کام لینے کی ضرورت رہتی ہے۔انسان جب مشکل فیصلے کرتا اور ان پر ثابت قدم رہتا ہے تو شخصیت و کراد میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔عصرنو کے تقاضے بھی تو یہی ہیں کہ امن کے فروغ کے لیے اچھے اور ٹھوس فیصلے کیے جاٸیں تاکہ سماج اور معاشرت کی رعنائی برقرار رہے۔اور انسانیت کا بھرم بھی برقرار رہے۔
Leave a Reply