تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“قومی جرگہ ،اور پختونخوا کے معدنی ذخائر”

Articles , Snippets , / Wednesday, October 16th, 2024

تحریر:طارق خان یوسفزئی

ئی دھائیوں سے شورش اور بدامنی سے متاثرہ صوبہ خیبر پختونخوا،پاکستان کے چار صوبوں میں سے رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے. صوبہ خیبر پختونخوا شمال مغرب کی طرف افغانستان، شمال مشرق کی طرف شمالی علاقہ جات، مشرق کی طرف آزاد کشمیر، مغرب اور جنوب میں ضم اضلاع (وفاق کے زیرِ انتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات) جنوب مشرق کی طرف پنجاب اور اسلام آباد سے ملا ہوا ہے. صوبے میں سب سے بڑا نسلی گروہ پشتونوں کا ہے، جن کے بعد دوسرے چھوٹے نسلی گروہ بھی موجود ہیں اکثریتی زبان پشتو اور صوبائی دارالحکومت پشاور ہے۔خیبرپختونخواکی جعرافیاتی اہمیت کو مدنظر رکھ کر اگرہم بد امنی اور ان کے معدنی وسائل سے مالامال زمین پر غور فکر کریں اور پھر شورش سے متاثرہ اس صوبے کی انسانی وسائل ،انفاسٹرکچر اور ترقی کی شرح نمو پر نظر دوڑائیں تو دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا پختون خوا کی حالت ایک بن ماں باپ کے بچے کی طرح قابل رحم اور قابل افسوس نظرآئیں گی، ایک طرف تو یہ صوبہ بدامنی کا شکار ہے تو دوسری جانب اسے کئی انتظامی مسائل کا بھی سامنا درپیش ہیں۔جن میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسلہ سر فہرست ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ چلتا آرہا ہے اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں خصوصاً خیبرپختونخواہ کے ساتھ اس مد میں زیادتی ہو رہی ہے اگرچہ 1973 کے آئین کے بعد مختلف اوقات میں ان شکایات کا ازالہ کیا جاتا رہا ہے تاہم یہ مسئلہ اب بھی مزید اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں صوبہ کی مختلف سیاسی جماعتیں اور حکومتیں احتجاج کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی کئی بار مرکز کے ساتھ بعض اقتصادی معاملات اٹھاتی آئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی شکایت بجلی کے خالص منافع، اس کے واجبات اور منافع میں مرحلہ وار اضافے سے متعلق ہے۔ خیبرپختونخوا سرکاری ڈیٹا کے مطابق چار بڑے ڈیمز اور تین ہائیڈل پاور اسٹیشن سے تقریباًچھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اس صوبے کی بجلی کی اپنی ضرورت تقریباً سترہ سو سے دو ہزار میگاواٹ ہے تاہم نیشنل گریڈ سٹیشن سے اس کو گزشتہ کئی برسوں سے گرمی کے موسم میں نو سو سے تین سو میگاواٹ کی بجلی فراہم کی جارہی ہے جو کہ واقعتا زیادتی ہے۔ اگر اس کو اپنی پیدا کردہ بجلی سے دو ہزار میگاواٹ دی جائے تو چار ہزار میگاواٹ پھر بھی دوسرے صوبوں کو جاتی ہے دوسری شکایت یہ کی جا رہی ہے کہ پختون خواہ کے ان پاوراسٹیشن میں پَر یونٹ بجلی پر تین سے چار روپے کی لاگت آتی ہے مگر اس صوبے کے صارفین کو یہی بجلی کراچی، فیصل آباد اور لاہور کی طرح مقررہ قیمت پرفی یونٹ فروخت کی جارہی ہے۔ جو صوبے کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ۔وسائل کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی روز اول سے ہی متحرک تھی اور پشتون قوم کی شعور بیداری اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی ،لیکن انہیں کئی ایک اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا تھا۔لیکن اخر کار یہ کوشش بار آور ثابت ہوئی اور اس کا نتیجہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ روز منعقد ہونے والی قومی جرگہ کی انعقاد کی صورت میں سامنے آئی ،تین دنوں پر مشتمل یہ جرگہ اتوار کو اختتام پذیر ہوا ،جرگہ میں ضم اضلاع کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع سے عام پختونوں اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی، جرگے سے پشتون تحفظ مومینٹ کے مرکزی مشران کے علاؤہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ،جرگہ کے اخر میں ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا ,اعلامیہ میں ویسے تو تمام نکات اہمیت کے حامل ہیں لیکن آج ہم جس نکتہ پر قلم طرازی کرنے کی جسارت کر رہے ہیں وہ ہے خیبرپختونخوا کے معدنی وسائل ،ان کی نشان دہی اور ان کو قومی ترقی کے استعمال میں لانا،پختونخواہ جرگہ کے مطابق پختون سرزمین کی وسائل کی تفصیل کچھ اس طرح پیش کی گئی ،اعلامیہ کے مطابق جنوبی اضلاع کے ضلع کرک سے گزشتہ 11 ماہ میں 85 لاکھ 43 ہزار بیرل تیل برآمد کیا گیا ہے۔ملاکنڈ ڈویژن کے سیاحتی ضلع سوات میں بہترین زمرود کے 70 ملین قیراط ہیں اور مارکیٹ میں 220 قیراط کی قیمت 4000 سے 6000 ڈالر تک ہے۔ اس سال خیبر سے 40 ٹن فلورائٹ برآمد کیا گیارہ۔11 ماہ میں کرک سے 65000 ملین ایم سی ایف گیس برآمد کی گئی ہے۔مہمند میں اس سال 1935 ٹن نیفرائٹ نکالا گیا۔مالاکنڈ میں 200 ملین ٹن، صوابی بلاک میں 100 ملین ٹن ماربل ہے۔ضلع مہمند میں 1,360,000 ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے۔
ضلع چترال، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پختونخوا میں سالانہ 640,000 کلو چھلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی قیمت چین میں 18,000 روپے فی کلو ہے۔
ذرائع آمد رفت کی مد میں کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30,000 سے 35,000 گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا کرایہ 80 سے 450 روپے ہے اور اس کا کنٹرول فوجی کمپنی NLC کے پاس ہے۔جنوبی پختونخوا کے ڈھاکہ ضلع سے روزانہ 5000 ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔
درہ آدم خیل سے ہر سال 350,000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔بونیر اور مردان میں 2 ارب ٹن ماربل موجود ہے۔ضلع چترال میں ایک ارب ٹن ماربل موجود ہے۔صرف کورما میں 20 لاکھ ٹن کوئلہ موجود ہے، اس کے ساتھ لوہے کی گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ بالائی وزیرستان کے پیر گھر میں تانبے اور سونا کی بڑی مقدار موجود ہے۔گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ باجوڑ میں ہر سال 85000 ٹن ماربل، اور 1550 ٹن کرومائیٹ برآمد کیا جاتا ہے۔ پختونحوہ اور بلوچستان میں 700 کروڑ کے جواہرات ہیں جو ہماری سوچ سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ عرب ممالک میں تیل کا ہر دس میں سے ایک کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے۔میران شاہ میں اتنا تیل ہے جو پاکستان کی 40 سال کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔شمالی وزیرستان میں 36000 ملین ٹن تانبا موجود ہے ایک ٹن تانبے کی قیمت 7000 ڈالر ہے۔
پن بجلی کی مد میں تربیلا ڈیم سے 4000 سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، اسے 250 بڑی فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تربیلا ڈیم سے پختونحواکی حکومت اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔اسی طرح لکی مروت بٹنی کی ویلی آئل فیلڈ سے 1,000 سے 3,000 بیرل تیل اور 1 سے 5 ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔ملاکنڈ کے دریاؤں سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 1 سے 2 روپے فی یونٹ ہے۔اعلامیہ جاری کرنے تک تو یہ ایک بھترین اقدام ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینٹر اور ممبران قومی اسمبلی اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو کس طرح راضی کرتے ہیں یا بصورت دیگر ان کو پریشرائز کرکے بات منواتے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International