Today ePaper
Rahbar e Kisan International

قومی شناختی کارڈ پر رابطہ نمبر کی عدم موجودگی، ایک اہم قومی مسئلہ

Articles , Snippets , / Thursday, June 26th, 2025

rki.news

تحریر: احسن انصاری

پاکستان میں نادرا کی جانب سے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) ہر شہری کے لیے ایک نہایت اہم دستاویز ہے۔ یہ کارڈ ہر فرد کی شناخت کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے—چاہے وہ بینکنگ ہو، سفر، ملازمت، یا ووٹ ڈالنا۔ اس کارڈ پر شہری کی بنیادی معلومات جیسے نام، والد کا نام، تاریخِ پیدائش، تصویر، شناختی نمبر اور پتہ موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ایک نہایت اہم چیز اس پر شامل نہیں کی گئی: شخصی رابطہ نمبر۔

یہ کمی بظاہر معمولی لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ عام شہری کے لیے کئی مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا شناختی کارڈ کہیں گم کر دے—خواہ وہ سفر کے دوران ہو، خریداری کے وقت، یا کسی عوامی مقام پر—تو جو شخص وہ کارڈ پائے گا، وہ اسے واپس دینے کے لیے مالک سے رابطہ کرنے سے قاصر ہوگا۔ کارڈ پر نہ فون نمبر ہے، نہ ای میل اور نہ ہی کوئی اور رابطے کا ذریعہ۔ نتیجتاً، اکثر اوقات وہ کارڈ یا تو ضائع کر دیا جاتا ہے، یا کسی ایسی جگہ رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے مالک تک اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

شناختی کارڈ کے گم ہونے کے بعد اصل مالک کو نیا کارڈ بنوانے کے لیے طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایف آئی آر درج کرانا، فیسیں ادا کرنا، بار بار نادرا کے دفاتر کے چکر لگانا، اور وقت کا ضیاع—یہ سب مراحل ایک عام شہری کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

شناختی کارڈ کے گم ہونے سے صرف شناختی دستاویز کی کمی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے سبب کئی دیگر رکاوٹیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ایک شخص جب کارڈ سے محروم ہوتا ہے تو وہ بینکنگ، سرکاری دفاتر، بائیو میٹرک تصدیق، ہوائی یا ریلوے سفر، اور یہاں تک کہ موبائل سم کے حصول سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ اگر کارڈ کسی غلط ہاتھ میں چلا جائے اور وہ اسے غلط مقصد کے لیے استعمال کرے، تو اصل مالک کو قانونی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس مسئلے کا حل بہت سادہ اور قابلِ عمل ہے۔ نادرا کو چاہیے کہ وہ شناختی کارڈ پر اختیاری طور پر موبائل نمبر شامل کرے۔ یہ نمبر کارڈ کے پچھلے حصے پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے، یا سمارٹ کارڈ میں موجود چپ میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اگر پرائیویسی کا مسئلہ ہو تو اس نمبر کو کیو آر کوڈ کے ذریعے بھی شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ صرف مجاز ادارے یا اہلکار اسے اسکین کر کے دیکھ سکیں۔

یہ سہولت کسی بھی شخص کو یہ موقع دے گی کہ اگر اسے کوئی شناختی کارڈ ملے تو وہ فوراً اصل مالک سے رابطہ کر کے کارڈ واپس کر سکے۔ اس چھوٹے سے اضافے سے ہزاروں افراد کو مشکلات سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نادرا ایک ایسا آن لائن پورٹل بھی متعارف کرا سکتا ہے جس کے ذریعے کارڈ نمبر درج کر کے نادرا اصل مالک کو اطلاع دے دے—بغیر اس کے کہ کارڈ ملنے والے کو کوئی ذاتی معلومات فراہم کی جائیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے پہلے ہی بہتر نظام موجود ہے۔ یورپی یونین کے کچھ ممالک میں ڈیجیٹل آئی ڈی کارڈز ایسے ہوتے ہیں جن میں اختیاری طور پر ذاتی رابطے کی معلومات شامل ہوتی ہیں، یا سیکیور آن لائن پروفائل سے منسلک ہوتی ہیں۔ اس سے شناختی معلومات کے غلط استعمال میں کمی آئی ہے اور کارڈ کی بازیابی کا عمل آسان ہوا ہے۔

بعض افراد کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ رابطہ نمبر کی موجودگی سے پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے، لیکن اگر اسے اختیاری رکھا جائے اور جدید طریقوں جیسے کیو آر کوڈ یا خفیہ اسٹوریج میں رکھا جائے تو اس مسئلے کا بھی حل موجود ہے۔

اس کے علاوہ، ایمرجنسی کی صورت میں—جیسے کسی حادثے یا قدرتی آفت میں—اگر فوری طور پر کسی کے اہلِ خانہ کو اطلاع دینا ہو تو شناختی کارڈ پر رابطہ نمبر کی موجودگی ایک قیمتی ذریعہ بن سکتی ہے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں شناخت کا محفوظ ہونا ضروری تو ہے، لیکن ساتھ ساتھ رابطے کے قابل ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ نادرا کو چاہیے کہ وہ شناختی کارڈ کے ڈیزائن پر نظرِثانی کرے اور اسے عوام کی روزمرہ کی ضروریات کے مطابق اپ ڈیٹ کرے۔ ایک چھوٹا قدم، جیسے رابطہ نمبر کا اندراج، ہزاروں شہریوں کے لیے بڑا سہارا بن سکتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ پالیسی ساز ادارے اور نادرا اس اہم قومی مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور شہریوں کو بہتر اور مؤثر سہولت فراہم کریں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International