rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گولی چلی اور انسان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا، ایسی خبریں روزانہ کی بنیاد پر سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان نے دورِ جاہلیت سے اب تک شائد مادی ترقی تو بہت کر لی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ اب بھی اُسی دورِ جاہلیت ہی میں زندہ ہے، فرق صرف ہتھیار کا ہی ہوا ہے۔ پہلے پہل انسان کا پتھر ہتھیار بنا، پھر لکڑی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی، پھر کلہاڑی اور تلوار کا دور شروع ہوا، پھر بندوق نے ان سب کی جگہ لے لی، اور اب جدید اسلحہ انسان کا مہلک ہتھیار بن چکا ہے۔ ہتھیار بدلتے رہے لیکن انسان کی جان اتنی ہی سستی رہی جتنی آغاز میں تھی، شائد کچھ ترقی یافتہ ممالک میں سخت قوانین کے خوف سے انسانی قیمت میں ایسے اضافہ ہوا ہو کہ مارنے سے پہلے مارنے والے کو خود کو اس جرم کی پاداش میں ایک سخت سزا قبول کرنے کے لئے ذہن بنانا پڑتا ہو ، مگر ترقی پذیر ممالک میں گولی چلاتے ہوئے ہاتھ اس قانون نام کے کسی لفظ کے خوف سے کبھی بھی نہیں کانپتے۔ آئے دن ان واقعات سے دل دہل سا جاتا ہے لیکن ہر واقعہ کچھ دن بعد ماضی کے اندھیرے میں گم ہو جاتا ہے۔ آج بھی سوشل میڈیا پر ایک واقعہ نے کہرام مچا دیا جب دو زندہ انسانوں کو محبت کی شادی کرنے کے جرم میں غیرت کے نام پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ہر دل ان کا غم محسوس کر رہا ہے ، لیکن من حیث القوم ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم چند دن کی یاد منانے اور شور کرنے کے علاؤہ کچھ عملی اقدام کرنے سے قاصر ہی رہے ہیں اور چند دن کی آہ و بکا کے بعد خاموشی اختیار کر کے اگلے سانحہ کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ انسان اپنی ترقی پر کتنا خوش رہتا ہے، لیکن کیا یہی وہ ترقی ہے جہاں ایک کا کمایا ہوا پیسہ دوسرا بذریعہ اسلحہ چھیننے کی کوشش میں مصروف ہے، اور اس عمل میں وہ جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ عدالتوں میں مقدمات پر مقدمات لگتے رہتے ہیں۔ اندر عدالت میں مقدمہ چل رہا ہوتا ہے، اور عدالت سے باہر دھمکیوں کا اور طاقت کے استعمال کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اب گواہ اپنے پیارے کی خاطر یا تو خود بھی گولی کھانے کو تیار رہے، یا پھر مقدمہ کی پیروی چھوڑ کر جان بچا لے۔ دونوں صورتوں میں یہ اندھا بہرا معاشرہ اس سب کو روز مرہ کا معمول سمجھ کر چند دن میں ہر واقعہ کی طرح اس کو بھی بھلا دیتا ہے ۔ عوام کا تو کہنا ہی کیا، لیکن کیا حکمرانوں کے لئے حکومت کا حصول بھی صرف عیش میں زندگی گزارنے کے لئے ہوتا ہے یا ان وعدوں کی تکمیل بھی ہوتا ہے جو سنہرے خواب دکھا کر یہ حکومت حاصل کی جاتی ہے۔ اگر حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر ایسا معاشرہ جنگل کا روپ ہی دھار لیتا ہے ، جہاں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے۔ کوئی ایک واقعہ ہو تو انسان اس کی نشاندہی کر کے شاید افسوس بھی کر لے، لیکن جب پورے ملک میں ان جیسے واقعات کا ایک تسلسل نظر آتا ہو تو اس معاشرے پر افسوس ایک بہت چھوٹا لفظ رہ جاتا ہے۔ اس پر زیادہ افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ معاشرہ ان جرائم پر آواز اٹھانے کے بجائے بس کفِ افسوس مل کر کے چپ ہو رہتا ہے، اور اپنی باری کا انتظار کرتا ہے کہ کب ان انسانوں کے جنگل میں کوئی درندہ اسے اپنا شکار سمجھ کر مار لے۔
اس دنیا میں موت کئی نام بدل کر تعاقب میں لگی ہوئی ہے ۔ موت برحق بھی ہے، لیکن کوئی مذہب، کوئی معاشرہ کسی دوسرے کی بے گناہ جان لینے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہم خاص طور پر دین اسلام کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں۔ اس مذہب کے ماننے والے جہاں فخر کا معیار قوم، نسل یا زبان نہیں بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہم مساجد میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہوئے کسی کی ذات یا نسل نہ پوچھنے والے مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہی اتنی نفرت کہاں سے لے آتے ہیں؟ کیا ہم ﷲ کے گھر میں منافقت کرتے ہیں ۔ کیا ہماری یہ سوچ ہے کہ ﷲ ہمارے دلوں میں چھپی اِس منافقت کو نہیں دیکھ سکے گا؟ ﷲ تو سب جانتا ہے پھر کیسے تمہیں ایسی عبادت کا اجر حاصل ہوگا جس میں تمہاری روح ہی شامل نہیں ہے؟ ہم دینِ اسلام میں ﷲ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہمارے مسلمان بھائی کی جان، مال اور عزت کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ اپنے مسلمان بھائی کی جان اور مال لوٹنا حرام ہے، تو پھر اپنے گریبان میں جھانک کر ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ وعدہ توڑ کر کیا ہم ﷲ کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ ﷲ تو ہر وقت ہم سب کو دیکھ رہا ہے اور ہم ہر وقت اس کا سامنا کر رہے ہیں، پھر کیسے ہم اس کے عذاب سے بچ پائیں گے؟
یہ معاشرے میں گھٹن یہ بے سکونی یہ بے چینی ایسے ہی تو نہیں، اس کی وجوہات پر غور کرنے کی فرصت ابھی انسان کو نہ بھی ہو، لیکن ایک وقت آتا ہے جب انسان کو پشیمانی چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے، تب دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا بچنے کا، تب لوگوں سے غصب کیا مال سانپ بن کر ڈستا ہے، کسی کا خون ہاتھوں پر یوں جم جاتا ہے کہ پھر ہاتھ دھو دھو کر بھی یہ خون صاف نہیں ہو پاتا۔ ہم زبان سے تو اسلام کے اصول بیان کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں، لیکن زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ الا ﷲ تو کیا حاصل جب دین کے اصولوں پر عمل ہی نہیں ہو رہا۔
ایک خبر پڑھ کر جب ہر انسان کی آنکھ نم ہو جاتی ہے تو پھر ان حکمرانوں کی نیندیں حرام کیوں نہیں ہوتیں؟ کیا ان کو اس پکڑ کا ڈر نہیں جو روزِ قیامت ان کا منتظر ہے؟ کیا ہر با اختیار سے اس کے اختیار کی بابت دریافت ہونے کے بعد یہ با اختیار اپنے انجام سے بے خبر ہیں؟ کیا خود کو شکاری سمجھنے والے ﷲ کے انصاف کو نہیں جانتے کہ کب شکاری خود شکار ہو جائیں ؟ اب بھی اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا وقت موجود ہے، وگرنہ ڈرو اس وقت سے جب ﷲ کی لاٹھی چل پڑے اور پھر انصاف کے لئے روزِ قیامت کا انتظار نہ ہو بلکہ یہاں ہی قیامت بپا کر دی جائے۔
Leave a Reply