دو قومی نظریہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد تھا جِسے عملی جامعہ پہنانے کے لئے 23 مارچ 1940 کو مُسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں شیرِ بنگال مولوی اے کے عبدالحق نے ایک قرارداد کی صورت میں پیش کیا جِسے قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان بھی کہتے ہیں. اس کا مقصد یہ تھا کہ جغرافیائی طور پر متصلہ علاقوں کی حد بندی ایسے خِطوں میں کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے. اس صورت میں پاکستان میں شامل ہونے والی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کا بھی موثر تحفظ کیا جائے گا. پاکستان کے قیام کی یہ پہلی اینٹ تھی جو بڑی آس اور اُمیدوں کے سہارے لگائی گئی. جب ہم قیام پاکستان سے اب تک کے حالات اور واقعات پر غور کرتے ہیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وطن عزیز کو کس کی نظر لگ گئی. نہ تو پاکستان 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق برقرار رہا اور نہ ہی عوام پر سکون ہیں. البتہ بڑے بڑے تاجر، اعلیٰ سرکاری افسران اور سیاستدان ہی ایسے طبقات میں شامل ہیں جو انتہائی خوشحال ہیں جبکہ عوام کو ان بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے جن کے مصرف سے عوام آگاہ ہی نہیں. سیاستدانوں نے مُلک کو مضبوط اور خوشحال بنانے کی بجائے دو ٹکڑے کر دیا اور جِس مسلم لیگ نے نظریہ پاکستان پیش کیا اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیئےگئے . اب سیاستدانوں سے یہی استدعا ہے کہ سِسکتی بِلکتی عوام کی حالت زار پر ترس کھائیں اور اپنے مزید ذاتی مفادات اور عناد سے بالاتر ہو کر بچے کُھچے پاکستان اور پاکستانیوں کی حالتِ زار کے پیشِ نظر اپنی حُکمرانی سے زیادہ مُلک و قوم کی بقا اور سلامتی کو ترجیح دیں.
بدلے گا زندگی کا چلن سُن تو رہے ہیں
نِکھرے گا اب ہمارا وطن سُن تو رہے ہیں
شہزادہ ریاض
Leave a Reply