تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

قیمے والے نان

Articles , Snippets , / Sunday, November 10th, 2024

بھوک
بھوک
اور
بھوک
بھوک کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، بھوک انتڑیوں کی وسعت اور لمبای سے کءی گنا لمبی اور وسیع و عریض ہوتی ہے بلکہ اندھی ہوتی ہے ایسا ہوتا نہیں ہے کہ ایک جیتا جاگتا انسان ایک دفعہ پیٹ بھر کے کھانا کھا لے اور اس پاپی بھوک کا خاتمہ ہو جاے پیٹ مردانہ داڑھی کی طرح لمحہ بہ لمحہ اگتی ہوی اپنے دانت ہمہ وقت تیز رکھتی ہے
اور یہ انسانی بھوک بڑی ہی طرح دار اور ذائقہ پسند ہوتی ہے انسانی بھوک اور کسی جانور کی بھوک میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جیسے اللہ پاک نے انسان کو شکل و صورت کے معاملے میں برتری عطا فرمای ایسے ہی فہم و فراست، انداز و فراست، بودوباش اور طرز معاشرت میں بھی برتری عطا فرمای انسان اپنے رہنے کے لیے اچھی، صاف ستھری جگہ پسند کرتا ہے. پہننے کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق اچھے سے اچھا کپڑا زیب تن کرتا ہے اور کھانے کے لیے وہی کھاتا ہے جو کھانے کو اس کا دل چاہے یا جو اس کا پسندیدہ کھاجا ہو.
اشرف المخلوقات
تیری گفتار بھی اعلیٰ
تیرا کردار بھی اعلیٰ
تیری پوشاک بھی اعلیٰ
تیری کھانے بھی من بھاتے
تیری خوراک بھی اعلیٰ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ خوراک انسانی جسم کے لیے کیوں اتنی ضروری ہے؟ ہم کیوں کھاتے ہیں یہ بھوک کے رونے ختم کیوں نہیں ہوجاتے لوگ اس بھوک کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے کا خون پینا کیوں چھوڑ نہیں دیتے. اصل میں انسانی جسم کو نشوونما، بڑھنے پھولنے، اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے صرف خوراک نہیں بلکہ متوازن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی متوازن خوراک مندرجہ ذیل چھ اجزاء پہ مشتمل ہے
کاربوہائیڈریٹس (نشاستہ)
پروٹین
چکنای
نمکیات اور وٹامنز
فایبرز
پانی
یہ چھ اجزا جب مناسب مقدار میں انسانی جسم کو مہیا ہوتے ہیں تو انسانی جسم و ذہن اپنی کارکردگی بہتر طور پہ دکھانے کے قابل ہوتے ہیں کاربوہائیڈریٹس ہماری خوراک کا تقریباً پچپن سے پینسٹھ فیصد ہوتے ہیں اور بہترین کاربوہائیڈریٹس وہ ہیں جو ہم پھلوں، سبزیوں، اور دالوں سے حاصل کرتے ہیں.. ہم اپنی ساری زندگی خوشی کے حصول کے لیے دن سے رات اور زندگی کی صبح سے شام کر دیتے ہیں. تو کھانا بھی انسانی خوشی کے لیے کھایا جاتا ہے غور فرمائیے گا لوگ چمن کی آیس کریم اور پھجے کے پاے کھانے کے لیے سالہا سال بعد بھی لاہوری کوچوں کاطواف کرنے پہ کیوں مجبور ہو جاتے ہیں میرا ہی ایک شعر ہے غور فرمائیے گا.
یہ تیرے شہر کی گلیاں میرا میخانہ نہیں
جہاں سجدے تو ہزاروں اذاں نہیں ہوتی
تو وہ جو انگلینڈ، آسٹریلیا، یا امریکہ یا برلن جا کے سیٹ ہو گیے ہیں انھیں پاکستانی گول گپے، گچک، مرونڈے،دادی کے ہاتھوں بنی ہوی باجرے کی میٹھی روٹیاں، قصوری فالودے
میرا، ملتانی سوہن حلوے،خوشاب کے ڈھوڈے پراے دیسوں اور بیگانی گلیوں بے طرح یاد آتے ہیں بڑا رلاتے ہیں. بھلے لباس مغربی ہو بھی جایں دل تو مشرقی ہالہ محبت کی زنجیروں میں ہی بندھے ہوتے ہیں ناں اور جب weekends پہ یہ مای کے لعل اپنا غم غلط کرنے pubs کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بے اذان سجدوں میں انھیں اپنے وطن کی اللہ اکبر کی پنج وقت صدایں دیتی مساجد اور اللہ کے حضور پنج وقت سجدے کرنے والی پیشانیاں تو خوب یاد آتی ہوں گی بڑا ہی رلاتی ہوں گی. ایک عام انسان کو دن میں ٹوٹل دو ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں میں خوراک کی ضرورت تقریباً دوگنا بڑھ جاتی ہے لہٰذا خدارا اپنی حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی خوراک کا خاص خیال رکھیے.
دنیا کی تقریباً گیارہ ارب آبادی کے ہر فرد کو دو ہزار حرارے مہیا کرنے کے لیے ایک عام انسان کو کتنی زیادہ تگ و دو اور کتنے جتن پڑتے ہیں پوچھیے مت وہ کءی دفعہ اپنا من مارتا ہے کءی جگہوں پہ بکتا ہے، کءی کءی جھوٹ بولتا ہے، کءی بے ایمانیاں کرتا ہے، کءی ہیرا پھیریاں کرتا ہے کءی جگہوں پہ سجی دکھا کے کھبی مار دیتا ہے مجھے اپنے علاقے میں مشہور و معروف جعلی گایناکالوجسٹ نہیں بھولتی جو اپنے جھوٹ، بناوٹ اور استادی کی بنا پہ مریضوں کو ببانگ دہل الو بناتی ہے اور لوگ بھیڑوں کی طرح قطار میں کھڑے ہو کر بیوقوف بنتے ہیں اور دای صاحبہ نہ صرف ایک بہت بڑے ہسپتال کی مالکن ہیں بلکہ انھوں نے ہمارے جیسے کءی ڈاکٹرز، سرجنز اور کنسلٹنٹس ملازم رکھے ہوئے ہیں. اور کروڑوں اربوں کی مالک ہیں اور دوسری طرف وہ بھی لوگ ہیں جو ایک وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں. اور فواد احمد بھی ایسا ہی ایک بد نصیب انسان ہے جو پانچ بچوں کا باپ اور ایک اپاہج بیوی کا شوہر ہے، سات نفوس کو روزانہ دو ہزار حرارے فراہم کرنے کے لیے فواد احمد نے ہر ہر کام کیا، پلے داری سے لیکر مزدوری اور مزدوری سے لیکر چھابڑی اٹھا کے نان خطایاں، آلو چھولے، لڈو پٹھیاں والے، ٹافیاں، گولے گنڈے مگر لگتا ہے کہ فواد احمد اور اس کے گھر والوں کے سوے ہوے مقدر جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہے، آج کل فواد احمد نے ایک نءی ڈش پکا کے بیچنی شروع کی ہے وہ ہے قیمے والا پلاو قیمہ رب جانے کس شے کا ہوتا ہے مگر فواد احمد کو اندرون لاہور سے کافی سستا مل جاتا ہے مناسب خرچے سے تیار ہونے والی ایک آلو قیمے کی دیگ سے سات نفوس پیٹ بھر کے کھانا کھا کے سو جاتے ہیں اب یہ کون سوچے کہ قیمہ کس کا ہوتا ہے اور کہاں سے آتا ہے.
توں کی جانے غلام فریدا
روٹی بندہ کھا جاندی اے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International