Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ماریہ کورینا مچاڈو — جمہوریت کا چہرہ یا سامراج کا پروجیکٹ؟

Articles , Snippets , / Monday, October 13th, 2025

rki.news

تحریر: طارق محمود
ایکسپرٹ میرج بیورو

دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں، وہ اکثر اتنے مہذب الفاظ میں لپٹے ہوتے ہیں کہ اصل مقصد نظروں سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ وینزویلا کی سیاست میں ابھرتا ہوا نام — ماریہ کورینا مچاڈو — اسی پیچیدہ کھیل کی ایک تازہ مثال ہے۔ مغربی میڈیا انہیں ”جمہوریت کی محافظ“ اور ”آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت“ قرار دیتا ہے۔ مگر اگر پردہ ذرا ہٹایا جائے تو یہ کہانی محض ایک سیاسی مہم نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند پروجیکٹ دکھائی دیتی ہے۔

یہ داستان 1990 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، جب وینزویلا عالمی مالیاتی اداروں کے نیولبرل ماڈلز کے تحت معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ 1999 میں ہیوگو شاویز نے اقتدار سنبھالا اور ریاستی تیل کمپنیوں کو عوامی کنٹرول میں لے کر ملک کو ایک خودمختار سوشلسٹ سمت میں موڑ دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب واشنگٹن نے فیصلہ کیا کہ لاطینی امریکہ کے اس نئے راستے کو ہر قیمت پر روکا جائے۔ لیکن شاویز کو عوامی حمایت حاصل تھی، فوج اس کے ساتھ تھی، لہٰذا براہِ راست مداخلت کی گنجائش نہ تھی۔ چنانچہ ایک نیا فارمولا ترتیب دیا گیا — “Regime Change Lite” — یعنی بغاوت نہیں، بلکہ اندرونی طور پر تخلیق کردہ تبدیلی: میڈیا مہمات، معاشی پابندیاں، اپوزیشن کی فنڈنگ، اور ”جمہوریت“ کے عنوان سے دباؤ کی انجینئرنگ۔

اسی دوران منظر پر نمودار ہوتی ہیں — ماریہ کورینا مچاڈو۔ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی، مغربی تعلیم یافتہ، اور واشنگٹن کے مفاہمتی حلقوں میں مقبول چہرہ۔ 2002 کی بغاوت کے دوران انہوں نے شاویز مخالف قوتوں کی کھلے عام حمایت کی، اور یہی لمحہ تھا جب امریکی اداروں کو ایک نئی ”سیاسی سرمایہ کاری“ کی صورت نظر آئی۔ انہیں تھنک ٹینکس، NGO نیٹ ورکس، اور میڈیا کے ذریعے آہستہ آہستہ ایک ”عوامی لیڈر“ کے طور پر تشکیل دیا گیا۔

مچاڈو کے نظریات واشنگٹن کے اسٹریٹیجک مفادات سے مکمل ہم آہنگ ہیں:
نجکاری، اوپن مارکیٹ، IMF سے تعلقات، نیٹو کے ساتھ اشتراک، اور بائیں بازو کی حکومتوں کے خلاف اتحاد۔
ان کا سیاسی منشور کسی مقامی عوامی جدوجہد سے زیادہ ایک عالمی سرمایہ دارانہ منصوبے کا خاکہ لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی اور یورپی حلقے انہیں نہ صرف حمایت دیتے ہیں بلکہ ایک مستقبل کی “قابلِ قبول” وینزویلین حکمران کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

مغربی میڈیا نے ان کے گرد ایک خاص بیانیہ تشکیل دیا — ایک باہمت خاتون، جو ظلم کے خلاف کھڑی ہے۔ لیکن اس بیانیے میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ وینزویلا کو معاشی تباہی کی طرف دھکیلنے والی پابندیاں خود انہی مغربی طاقتوں نے لگائیں، اور اب اسی تباہی کا الزام مادورو حکومت پر ڈال کر ”تبدیلی“ کی اخلاقی بنیاد تیار کی جا رہی ہے۔

اور اب جب انہیں نوبیل امن انعام کیلئے نامزد کیا گیا ہے، تو یہ قدم صرف ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک سیاسی علامت ہے — جیسے ماضی میں ہنری کسنجر یا باراک اوباما کو دیا گیا تھا۔ نوبیل کمیٹی کے فیصلے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے اخلاقی بیانیے کو تقویت دیتے آئے ہیں۔ جسے انعام ملے، وہ “حق” کے زمرے میں آ جاتا ہے — چاہے میدانِ جنگ میں سچ کچھ اور ہو۔

سوال یہ نہیں کہ ماریہ کورینا مچاڈو اچھی یا بری ہیں؛ سوال یہ ہے کہ انہیں کس مقصد کے تحت عالمی منظرنامے پر لایا جا رہا ہے؟ کیا وہ واقعی عوامی جمہوریت کی نمائندہ ہیں، یا ایک ایسے بین الاقوامی کھیل کی مہرہ جہاں سامراج اپنی شکستوں کو “انسانی حقوق” کے پیکج میں لپیٹ کر جیت میں بدل دیتا ہے؟

وینزویلا کی موجودہ حقیقت یہ ہے کہ عوام معاشی مشکلات میں ہیں، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان مشکلات کی جڑیں کہاں پیوست ہیں — واشنگٹن کی پابندیوں میں، اور ان پالیسیاں میں جنہوں نے تیل کی دولت کو سیاسی ہتھیار بنا دیا۔ ایسے میں، اگر مچاڈو کو ”جمہوریت کی آخری امید“ کہا جائے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے: یہ جمہوریت کس کیلئے ہے — عوام کیلئے یا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کیلئے؟


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International