rki.news
تحریر: شازیہ عالم شازی
اکتوبر کا مہینہ دنیا بھر میں “پنک اکتوبر” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مہینے کو چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے تاکہ خواتین اور مرد دونوں اس بیماری کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کریں اور اس پر بات کرنے کی جھجک کو ختم کیا جا سکے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں صحت کے مسائل پہلے ہی سنگین ہیں، چھاتی کا کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام بیماری کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر کیسز دیر سے تشخیص ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں علاج مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جب دنیا بروقت تشخیص اور جدید علاج کے ذریعے اس مرض پر قابو پا رہی ہے، ہم اب بھی لاعلمی اور بے خبری کے اندھیروں میں ہیں۔ معاشرتی رویے، جھجک، اور “لوگ کیا کہیں گے” جیسی سوچیں خواتین کو اپنی صحت کے معاملے میں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ یہی وہ خاموشی ہے جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم چھاتی کے کینسر کو بیماری کے بجائے ایک حقیقت کے طور پر قبول کریں اور اس پر کھل کر بات کریں۔ گھروں میں بیٹیاں، مائیں اور بہنیں جب اپنی صحت کے بارے میں بات کریں تو ان کی آواز دبانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ مرد حضرات کو بھی اس موضوع پر مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ اکثر خواتین اپنے خاندان کے تعاون کے بغیر ڈاکٹر سے رجوع نہیں کر پاتیں۔
اکتوبر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ صرف ایک مہم نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ آگاہی کے پروگرامز کو ترجیح دے، تعلیمی ادارے اپنے طلبہ کو اس حوالے سے شعور دیں، اور سب سے بڑھ کر ہر فرد اپنی سطح پر یہ پیغام عام کرے کہ چھاتی کے کینسر کی بروقت تشخیص زندگی بچا سکتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کو اکثر خوفناک مرض سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بروقت تشخیص کے بعد لاکھوں خواتین صحت یاب ہو چکی ہیں۔ یہ مرض صرف جسمانی نہیں بلکہ جذباتی اور سماجی امتحان بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں خاندان، دوست اور معاشرہ مریضہ کے لیے حوصلے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یاد رکھیں، چھاتی کا کینسر ایک ایسا مرض ہے جو وقت پر معلوم ہو جائے تو قابلِ علاج ہے۔ لیکن اگر ہم نے اسے نظرانداز کیا تو یہ زندگی کا سب سے بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے، لہٰذا آئیے اس اکتوبر یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف اپنی صحت کو سنجیدگی سے لیں گے بلکہ اپنے گرد و نواح میں بھی شعور پھیلائیں گے۔ کیونکہ صحت محض ذاتی نہیں، ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔
Leave a Reply