سلیم کاوش
الحمد پبلیکیشنز،لاہو
اشاعت:2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر سلیم کاوش سے ہماری روزانہ کی ملاقات یہ باور کراتی ہے کہ وہ ایک نظریاتی شاعر ہیں کیوں کہ ان کی شعری تخلیقات اکثر و بیش تر پاکستانیات اور سیاسیات کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں تاہم “متاع اشک” کا مطالعہ ہمیں ان کی شعری شخصیت کا دوسرا پہلو بھی دکھاتا ہے جس میں وہ سماج کے متفرق پہلوؤں کو موضوع بنا رہے ہیں،ان میں رومانیت،شعری جمالیات،محبت اور انسان دوستی کے رنگ نمایاں ہیں۔ایسے موضوعات کے برتاؤ اور سبھاؤ کے دوران سلیم کاوش کا لہجہ دھیما اور سرمستی میں ڈوبا ہوا ہے۔لیکن جیسے ہی بات پاکستان یا عالمی امن کی ہو تو ان کا لب و لہجہ جوشیلا اور بلند آہنگ ہونے لگتا ہے۔ان دونوں اسالیب میں قدرِ مشترک جذبے کا خالص پن ہے جس کی آنچ ہر پڑھنے والا شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔اگر زبان و بیان اور شعری روایت کا ذکر کیا جائے تو جناب کاوش فارسی روایت کے اسیر نظر آتے ہیں تاہم نئی علامتوں اور تازہ لفظیات کی بدولت اپنا منفرد لسانی رنگ تشکیل دیا ہے جو بغیر ریاضت کے ممکن نہیں ہو سکتا۔ان کا مجموعہ در حقیقیت بیاضِ صدق و صفا کا مرقع ہے جس میں سنجیدہ رنگ فکر کی بالیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور شوخ رنگ ان کی جواں فکر کا عکاس بن جاتا ہے ۔فیس بک پر ان کی سیلفی یا سیلفی نما تصویر دیکھ کر ان کے رہن سہن ،خُوبُو،طور اطوار اور گفتار و کردار کا جو نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے اس سے ان کی نستعلیق شخصیت بن جاتی ہے۔اس شعری مجموعے میں جناب کاوش نے جس والہانہ محبت اور وابستگی کے ساتھ اپنے اہل خانہ کا ذکر کیا وہ لاجواب ہے۔عموماً ہمارے شعرائے کرام دنیا جہان کے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن اپنے اہل و عیال کے لیے کلمۀ خیر کہنا بھول جاتے ہیں لیکن ہمارے کاوش بھائی کتاب کے آغاز ہی میں اپنے والد بزرگوار میاں عبداللہ علی واثق والدہ سردار بیگم اور اپنی شریک حیات اور بچوں کا نام لے لے کر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ رکھ رکھاؤ ایسے ہی نہیں آ جایا کرتا اس کے پس منظر میں خاندانی روایات کا زندہ ہونا شرط اول ہے۔شریک حیات کے لیے ان کا یہ شعر خصوصی توجہ چاہتا ہے۔
میں تری ذات کو تشبیہ نہیں دے سکتا
میں کسی اور حوالے سے تجھ کو کیوں دیکھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ڈاکٹر عامر سہیل:ایبٹ آباد،پاکستان)
Leave a Reply