Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“متشاعر/ متشاعرات”

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Saturday, June 7th, 2025

rki.news

کراچی میں پچھلے چند برسوں میں متشاعر اور متشاعرات کی وبا نے زیادہ زور پکڑلیا۔ اس وبا کو پروان چڑھانے والوں بھی ہمارے مستند اہلِ قلم شامل ہیں۔ شعر لکھ کر بھی دیتے ہیں اختلافات ہونے پر تھانہ کچہری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ اپنے مشاعروں میں متشاعرات کو کیوں بلاتے ہیں۔ ہنس کر بولے “فار اسٹیج ڈیکوریشن”۔
“فیروز سے فیروزہ”
کسی نے پوچھا کہ ادبی حلقوں میں جلد شہرت کیسے حاصل ہوسکتی ہے ۔ ہم نے کہا کہ بہت آسان ۔ “آپ کے پاس پیسہ ہو، اور پیسہ بھی لٹانے کے لیے، یا کسی بڑے عہدے پر ہوں یا پھر آپ فیروز سے فیروزہ ہوجائیں تو شہرت بھی ملے گی، چالیس پچاس غزلیں بھی اور مجموعہ بھی چھپ جائے گا۔۔ رہی رونمائی تو بہت سی آفر آجائیں گی”۔ آج کل ہمارے شہر میں یہی سب کچھ ہورہا ہے:

“سستی شہرت حاصل کرنے کوچوں میں چوباروں میں
کھوٹے سکے اچھلے اچھلے پھرتے ہیں بازاروں میں

ہیں کچھ ایسے لوگ جو اپنے پیسوں سے چھپواتے ہیں
اوروں کے کاندھوں پہ چڑھ کر تصویریں اخباروں میں”
(ف ن خ)

آج کل شعر و ادب کا معیار اس حد تک گر چکا ہے کہ اب شادی بیاہ، عقیقہ، ختنہ کی تقریبات کے اختتام پر مشاعرہ، مشاعرے کے بعد پھر کہیں بیٹھ کر مشاعرہ، کتاب کی رونمائی کی تقریب ہے تو اس کے بعد مشاعرہ، ڈھابوں، چائے خانوں میں مشاعرہ :

“سرِ راہ برپا ہے بزمِ سخن
ہے داد و دہش چائے دانی میں بند”
(ف ن خ)

شعراء کی تعداد بھی تیس چالیس سے کم نہیں۔ تقدیم و تاخیر کے مسائل الگ۔ جسے دیکھو وہ اپنے بچپن سے شعر کہہ رہا ہے۔
لگتا ہے پیدائش کے وقت کان پھاڑ چنگھاڑ دراصل تازہ شعر کی آمد کا اعلان تھا۔

“استادی شاگردی”
جنہیں خود ابھی اصلاح کی ضرورت ہے وہ بھی فخریہ اپنے شاگردوں کی تعداد گناتے نظر آتے ہیں۔ استاد بننے کی کوشش میں بے چارے نوآموز کی جان کو آجاتے ہیں:

ہر گلی کوچے میں آتے ہیں نظر
چند استادانِ فن خود ساختہ
(ف ن خ)

مشاعروں کی قدیم روایات بھی خوب پامال ہورہی ہیں۔ کھڑے ہوکر پڑھنا اب فیشن بنتا جارہا ہے۔ داد بھی قوالوں کی طرح تالیاں پیٹ پیٹ کر دی جاتی ہے۔ ناظمِ مشاعرہ اور میزبان بجائے پہلے پڑھنے کے اپنا مقام خود متعین کرنے لگے ہیں۔ ہم نے کئی بار بھری محفل میں اس بدعت کی پرزور مخالفت کی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات:

“میزبانِ محترم کچھ ناظمِ بزمِ سخن
آج بتلاتے ہیں خود اپنا مقام اپنی حدود”
(ف ن خ)

غرض ہر قسم کا مال مارکیٹ میں موجود ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ خریدار بھی موجود ہیں۔ متشاعرات بھاؤ بتا بتا کر لکھوائی ہوئی غزلیں نظمیں پڑھتی نظر آتی ہیں۔ سامعین جن میں اکثریت شعراء کی ہوتی ہے تالیاں بجا بجا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ محترم مسند نشینان “ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق” بت بنے بیٹھے رہتے ہیں آخر انہیں آئندہ بھی تو انہی مسندوں کو آباد کرنا ہے:

ہے اجازت آپ کو فرمائیے
جو بھی پڑھنا ہے پڑھے اب جائیے
(ف ن خ)

بغل بچہ تنظیموں سے قطع نظر اس بگاڑ میں
درجِ ذیل ادارے اور ادبی تنظیمیں بھی ہیں جن۔کے دم سے کراچی کے ادبی منظر نامے میں
بناؤ، سجاؤ اور سبھاؤ کے رنگ نمایاں ہیں:

(آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی)۔
(بزمِ شعروسخن، حلقہء اربابِ تخلیق، بزمِ مکالمہ)۔ (بزمِ یارانِ سخن)۔ (بزمِ تقدیسِ ادب)۔ (ادارہء فکرِ نو)۔ (زینہ پاکستان)۔ (نیازمندانِ کراچی)۔(بزمِ سعید الادب)۔ (اردو منزل۔صغیر احمد جعفری)۔ (بزمِ سائنسی ادب)۔ (بارگاہِ ادب)۔ (سلام گزار۔شہ نشین)۔(اردو دہلیز)۔ (اکیڈمی ادبیات پاکستان،، کراچی)۔ (بسمل آڑٹس کونسل، پاکستان)۔ (دانش گاہِ اقبال)۔ (بزمِ ناطق بدایونی)۔
ان میں سے بیشتر تنظیمیں معیار سے ہٹ کر ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ادباء و شعراء کا انتخاب کرتی ہیں۔ آپس کے شدید اختلافات بھی شعروادب کی فضا کو متاثر کو متاثر کرنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اگر یہ سبب ختم ہوجائے بلکہ شعوری کوشش سے ختم کردیا جائے تو شہر کا شعری و ادبی منظر نامہ مزید گرد آلود ہونے سے بچا رہے گا:

“ایروں غیروں سے میں نے سنا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے ۔۔۔
آپ کو مجھ سے شکوہ گلہ ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے

پیٹھ پیچھے نہ باتیں کیا کیجئے چاک دامن کے گھر میں سیا کیجئے۔۔۔
آپ اٹھ کر گئے وہ ہنسا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے”
(ف ن خ)

“دیارِ غیر سے طیورِ خوشنوا کی آمد : دل باغ باغ”

مختلف مواقع پر باہر ممالک میں مقیم ہمارے اہلِ قلم کراچی آتے رہتے ہیں۔ انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے اور کہا بھی جاتا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ ان کی تخلیقات کے معیار کی بنیاد پر ہم انہی تین درجوں میں بانٹ سکتے ہیں۔
اعلیٰ ، درمیانی اور سطحی۔ چند کے ساتھ موقر تنظیمیں، ادارے، ازخود معیاری تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر “کچھ لو اور دو” کی بنیاد پر تعارفی شاموں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
باقی رہ جانے والے کیوں پیچھے رہیں پس وہ ساتھ لائے ہوئے ڈالرز لٹانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اس بہترین موقع سے فائدہ اٹھانے والے ہمارے اپنے بھی کم نہیں بلکہ بعض جہاں دیدہ خود رابطہ کرکے ان کے اعزاز میں جشن، شام، اور کتابوں کی تقریبِ رونمائی اس شاندار پیمانے پر کرتے ہیں کہ دیکھتے رہ جایے۔ کاش ایسا نہ ہو۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وقت کے مورخ کا قلم کسی لیزر نائف (Leser Knife) کی طرح کام کرتا ہے:

“کچھ اِدھر کٹ جائیں گے اور کچھ اُدھر کٹ جائیں گے
معتبر رہ جائیں گے نا معتبر کٹ جائیں گے”(فیروز ناطق خسروؔ ) جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International