مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
اے دل میرے، ناشاد مرے
ہمزاد مرے، برباد مرے
اک عمر سے اس زندان میں ہوں
پر کھول مرے آزاد تو کر
مرے پیروں میں زنجیرِ وفا
اسے توڑ ذرا، مجھے جوڑ ذرا
مجھے جینے کی تہذیب تو دے
مری سانسوں کو ترتیب تو دے
اب خود کوذرا تُو شاد تو کر
مجھے جیون سے آزاد تو کر
تُو جانتا ہے اس جیون کو
یہ مدفن ہے ہر حسرت کا
یہ جیون ہے اک موت نما
مجھے دور یہاں سے جانا ہے
اُڑنا ہے فلک کی جانب اب
اک زنداں سے زنداں کی طرف
حیراں کی طرف، جاناں کی طرف
ہاں اُس کی طرف جس کی خاطر
یہ آنکھیں برسی ہیں شب بھر
جو خوشبو دیس کا باسی ہے
اور جس کو نہیں اب میری خبر
اے دل میرے میں خاک نشیں
کیا چاند کو اب تسخیر کروں
کس خواب کو کیوں تعبیر کروں؟
تاریک سا یہ جو جیون ہے
اب کیسے اسے تنویر کروں؟
اک رنگ جو ہے دامن میں مرے
اسے کتنی دفعہ تصویر کروں؟
دکھ سارے کیوں تحریر کروں؟
ہمزاد مرے، ناشاد مرے
اے دل میرے، برباد مرے
اب خود کو ذرا تُو شاد تو کر
اب تُو مجھ کو آزاد تو کر
مجھے جانا ہے جاناں کی طرف
حیراں کی طرف زنداں کی طرف
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
Leave a Reply