آنند بابو اور خرم صاحب دونوں بہت گہرے دوست ہیں۔ ایک ہی کالج میں آنند بابو بنگلہ کے پروفیسر ہیں اور خرم صاحب اردو کے۔ دونوں کڑی محنت اور لگن سے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے۔
آنند بابو اپنی پیاری بیٹی ارپیتا کو ہائر سیکنڈری میں ٹاپ آنے کے باوجود اپنے گھر سے نزدیکی کالج میں بنگلہ (آنرز) میں داخلہ کروائے جبکہ خرم صاحب اپنے بیٹے ذیشان کو (جو انگریزی میڈیم سے ہائر سیکنڈری میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوا) سینٹ لارنس ڈے کالج میں انگریزی (آنرز) دلوا کر بہت خوش ہوئے۔
ایک دن اپنے اپنے کلاس لینے کے بعد دونوں دوست اسٹاف روم میں بیٹھ کر کچھ باتیں کرنے لگے۔ آنند بابو نے خرم صاحب سے مسکراتے ہوئے کہا کہ “خرم دا مجھے ایک بات بتاؤ تم اردو زبان کے پروفیسر ہو اتنا اچھا پڑھاتے ہو، ہر طالب علم تمہاری عزت کرتا ہے، کالج کے سارے اسٹاف تمہاری سراہنا کرتے ہیں کہ تم اپنی اردو زبان کی بڑی خدمت کرتے ہو۔ لیکن مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تم اردو کے پروفیسر ہو کر بھی اپنے بیٹے کو انگریزی میڈیم سے پڑھاتے ہو”۔ پھر ایک تیکھی نگاہ سے خرم صاحب کو گھورتے ہوئے کہا کہ “تم اردو کے محافظ ہو یا لٹیرے۔؟”
خورشید تابش
ٹیٹا گڑھ مغربی بنگال
Leave a Reply