rki.news
تحریر و تحقیق: اشعر عالم عماد
“ہم نے بس اک پھول کی خاطر
سیکھ لیا کانٹوں سے بچنا”
شاعری جذبات، احساسات اور خیالات کی ترجمانی کا حسین ذریعہ ہے، اور جب یہ جذبات محبت جیسے لطیف احساسات کے گرد گھومتے ہیں، تو اشعار میں ایک خاص دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں کئی شاعر اور شاعرات نے محبت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، لیکن کچھ ایسے نام ہیں جو خاص طور پر محبت کے نرم و نازک جذبات کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام شازیہ عالم شازی کا ہے، جو اپنی منفرد طرزِ اظہار اور گہرے جذبات کے باعث پہچانی جاتی ہیں۔
نام شازیہ عالم ،اور شازی ان کا تخلص ہے شازیہ عالم 22 جولائی کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں ابتدائی تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن تک تمام تعلیم کراچی کے اعلی تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور جلد اپنی پیشہ وارنہ زندگی کا آغاز کیا اور آج کل ایک ”فارماسیٹیکل ادارے”میں پیکنگ میٹریل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹ میں بطور مینیجر کام کر رہی ہیں۔
شازیہ عالم شازی کے دو مجموعہ کلام جن میں “سمندر رازداں میرا 2020ء اور دوسرا مجموعہ کلام “پلکوں پہ سجے خواب” اشاعت جون 2025ء میں شائع ہوا۔شازیہ عالم شازی ملکی اور غیر ملکی کئی ادبی، سماجی اور ثقافتی تنظیموں کے کلیدی عہدے پر فائز ہیں جبکہ انہوں نے ایک ادبی تنظیم ”جہانِ رنگ انٹرنیشنل” کی بنیاد رکھی اور اس کی چیئرپرسن ہیں۔
شازیہ عالم شازی کی شاعری محبت کے لطیف جذبات، دل کی گہرائیوں میں چھپے احساسات اور حسن و عشق کی نزاکتوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں سادگی کے ساتھ ساتھ ایک گہرا مفہوم بھی ہوتا ہے، جو قاری کے دل پر براہ راست اثر کرتا ہے۔ ان کی شاعری صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ جذبات کی سچی عکاسی ہے، جو کسی بھی حساس دل کو چھو لینے کی طاقت رکھتی ہے محبت کے جذبے کو بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں، لیکن شازیہ عالم شازی اسے انتہائی نرم روی، شفافیت اور گہرائی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت صرف ظاہری حسن و عشق تک محدود نہیں بلکہ روحانی وابستگی، قربت کے جذبات، جدائی کی تڑپ، اور وصل کی خوشبو بھی نمایاں ہوتی ہے۔
اس نے توڑا جو دل تو یہ جانا
دلبری کیوں فریب دیتی ہے
آج تک یہ نہیں ہوا معلوم
عاشقی کیوں فریب دیتی ہے
یہ اشعار محبت کی آزمائش اور فاصلوں کے دکھ کو بڑی نزاکت سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح، ان کی شاعری میں امید، انتظار، خواب اور حقیقت کے سنگم کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
آج کے مصروف اور تیز رفتار دور میں جہاں محبت میں وقت، قربت اور خلوص کی کمی محسوس کی جاتی ہے، وہیں ان کی شاعری ان جذبات کو نہایت دلکش انداز میں بیان کرتی ہے۔ وہ محبت کو محض ایک رومانوی تجربہ نہیں بلکہ زندگی کی ایک خوبصورت حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہیں وہ جدید دور میں محبت کی شاعری کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں
وفا دل میں جگا کر دیکھ لیجے
مجھے مجھ سے چرا کر دیکھ لیجے
اگر کچھ دیکھنا چاہیں تو مجھ کو
کبھی اپنا بنا کر دیکھ لیجے
شازیہ عالم کی شاعری میں نغمگی اور مٹھاس کا حسین امتزاج موجود ہے شاعری کا اصل حسن اس کی روانی، نغمگی اور جذبات کی سچائی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب کوئی شاعر الفاظ کے ذریعے احساسات کو موسیقیت کے ساتھ بیان کرے، تو اس کی شاعری دل و دماغ پر ایک گہرا نقش چھوڑتی ہے۔ شازیہ عالم کی شاعری بھی ایسی ہی نغمگی اور مٹھاس سے بھرپور ہے، جو قاری کے دل میں ایک خاص اثر چھوڑتی ہے۔
نغمگی کسی بھی شاعری کو دلکش اور یادگار بناتی ہے۔ شازیہ عالم کے اشعار میں یہ خاصیت نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کی چاشنی اور آہنگ کی نرمی، پڑھنے اور سننے والوں کو ایک خوشگوار احساس میں مبتلا کر دیتی ہے۔ وہ محبت، انتظار، جدائی، اور زندگی کے دیگر لطیف احساسات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان کے اشعار گیتوں کی مانند محسوس ہوتے ہیں جیسے۔۔
”ہوائیں گنگناتی ہیں اگر ہم تم سے ملتے ہیں
وفا کے گیت گاتی ہیں اگر ہم تم سے ملتے ہیں
چمن میں پھول کھلتے ہیں محبت رقص کرتی ہے
فضائیں جگممگاتی ہیں اگر ہم تم سے ملتے ہیں”
جب کوئی شاعر اپنے الفاظ میں موسیقیت اور سچائی کو یکجا کر دے، تو اس کی شاعری صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ شازیہ عالم کے اشعار بھی اسی طرح قاری کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں جو مٹھاس ہے، وہ جذبات کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پڑھنے والے خود کو ان کے اشعار میں بسا ہوا محسوس کرتے ہیں شازیہ عالم شازی کی شاعری میں نرمی، مٹھاس اور گہری معنویت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے الفاظ جذبات کی سچائی کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں، اور یہی خوبی ان کے پہلے مجموعہ کلام “سمندر رازداں میرا” میں نمایاں تھی۔ یہ مجموعہ خوبصورت اور میٹھی غزلیات کی نغمگی سے بھرپور تھا، جس نے قاری کو محبت، اداسی، اور خوابوں کی دنیا میں کھو جانے پر مجبور کر دیا۔
“سمندر رازداں میرا”شاعری کی دنیا میں ان کی خوبصورت آمد کی علامت بنا۔ اس کتاب میں محبت کے لطیف جذبات، دل کی بے قراری، اور خوابوں کی حقیقت میں تلاش کی جھلک ملتی ہے۔ ان کی شاعری کا آہنگ ایسا تھا جیسے سمندر کی لہروں میں کوئی سریلا ساز بج رہا ہو یہ مجموعہ نہ صرف غزلیات کی نرمی اور موسیقیت سے بھرپور تھا بلکہ اس میں گہرے جذبات اور داخلی کیفیتوں کا بھی حسین امتزاج تھا۔ قاری کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے شاعرہ کے الفاظ اس کے دل کی بات کہہ رہے ہوں۔
”مجھے آواز دے کر چھپ گیا ہے
یہ دل کیسی شرارت کر رہا ہے”
”عشق سمجھتے ہیں سب جس کو
وہ بھی ایک عجب دھوکا ہے”
”مسکراتے ہوئے گلابوں میں
ہم نے دیکھا ہے اس کو خوابوں میں”
”نظر آتا ہے اُس کو اپنا چہرہ
مری آنکھوں میں جب وہ جھانکتا ہے”
”جو بھی کرلے محبتوں کے سوال
تم ہو شامل مرے جوابوں میں”
اسی طرح ان کا دوسرا مجموعہ کلام “پلکوں پہ سجے خواب” اردو شاعری میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوگا یہ کتاب ان کے اسلوب میں مزید نکھار، گہرائی اور وسعت کی عکاسی کرے گی۔ اگرچہ محبت، خواب، اور احساسات ان کی شاعری کا بنیادی محور ہیں، لیکن اس دوسرے مجموعے میں زندگی کے دیگر پہلوؤں کو بھی سمویا گیا ہوگا کتاب کا عنوان خود ایک گہری معنویت رکھتا ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خواب صرف نرمی اور راحت سے نہیں جڑے ہوتے، بلکہ بعض اوقات انہیں سختیوں پر بھی سجا کر جینا پڑتا ہے۔ یہ شاعری یقیناً محبت، درد، امید، اور حقیقت کے سنگم پر کھڑی ہوگی، جہاں احساسات کی دنیا اور حقیقت کی زمین ایک ساتھ ملتی ہیں۔
”روشنی کیوں فریب دیتی ہے
یہ خوشی کیوں فریب دیتی ہے
سوچنے کی یہ بات ہے کہ یہاں
آگہی کیوں فریب دیتی ہے
آخری سانس تک ہمیں شازی
زندگی کیوں فریب دیتی ہے”
”اس نے جب میرا ساتھ چھوڑا تھا
دل بہت ہی تڑپ کے رویا تھا
کیوں بتاتی کسی کو دل کا حال
کس نے کب میرا حال پوچھا تھا
۔
شازیہ عالم شازی کو ان کی ادبی و سماجی خدمات پر بے شمار قومی و بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ شازیہ عالم شازی پاکستان کے علاوہ یورپ سمیت کئی بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرچکی ہیں وہ اپنے بین الاقوامی دوروں کو سفر نامے کی صورت محفوظ کر رہی ہیں یعنی شازیہ عالم شازی ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ کالم نویس ،مضمون نگار، اور سفر نامہ نگار بھی ہیں۔
Leave a Reply