rki.news
تحریر: ثمینہ علی بیگ
ہر سال پاکستان میں31 جولائی کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا یومِ ولادت نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ تھیں بلکہ ایک پُرعزم سیاسی رہنما، نڈر سماجی مصلح، اور جمہوریت کی علمبردار تھیں۔ اُنہیں پاکستان کے قیام اور بعد ازاں جمہوریت کے تحفظ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں “مادرِ ملت” کے معزز لقب سے نوازا گیا۔
فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، جب برصغیر پر برطانوی راج قائم تھا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ والدین کے انتقال کے بعد اُن کی پرورش اُن کے بڑے بھائی محمد علی جناح نے کی۔ دونوں بہن بھائیوں کے درمیان گہرا رشتہ قائم تھا۔ قائداعظم نے نہ صرف اُن کی تعلیم کی بھرپور حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں خودمختار اور پراعتماد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
فاطمہ جناح نے اپنی تعلیم کا سلسلہ کلکتہ (موجودہ کولکتہ) سے مکمل کیا اور 1923 میں ڈینٹسٹری (دندان سازی) کی ڈگری حاصل کی۔ وہ برصغیر کی اُن چند مسلم خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے اُس دور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بمبئی میں انہوں نے اپنا کلینک قائم کیا اور پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، لیکن جلد ہی اُنہوں نے اپنے بھائی کی سیاسی جدوجہد میں بھرپور شرکت کے لیے یہ کیریئر ترک کر دیا۔
پاکستان کے قیام کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے اہم مرحلوں میں وہ ہر قدم پر قائداعظم کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے جلسوں، اجتماعات اور سیاسی ملاقاتوں میں شرکت کی اور خواتین کو تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ اُن کی شخصیت خود اعتمادی اور حب الوطنی کی ایک زندہ مثال بن گئی جس نے ہزاروں خواتین کو قومی تحریک کا حصہ بنایا۔
فاطمہ جناح قائداعظم کی صرف بہن ہی نہیں بلکہ ایک مشیر اور رفیق بھی تھیں۔ قائداعظم اُن کی رائے کو اہمیت دیتے اور اکثر مشاورت کرتے۔ اُن کی موجودگی قائداعظم کے لیے جذباتی اور اخلاقی سہارا تھی، خاص طور پر اُن مشکل وقتوں میں جب تحریکِ پاکستان اپنے اہم موڑ پر تھی۔
قیام پاکستان کے بعد، فاطمہ جناح نے سیاسی سرگرمیوں سے کچھ عرصہ کنارہ کشی اختیار کی۔ لیکن اُنہوں نے قوم کے مسائل اور چیلنجز پر گہری نظر رکھی۔ انہیں ملک میں آمرانہ طرزِ حکومت، بدانتظامی اور عوامی مسائل پر شدید تشویش تھی۔
1965 میں، 71 سال کی عمر میں، فاطمہ جناح نے دوبارہ سیاسی میدان میں قدم رکھا اور فوجی صدر ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔ یہ فیصلہ ایک جری اقدام تھا، جو جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف ایک پُرعزم پیغام تھا۔ اُن کی انتخابی مہم کو ملک بھر میں زبردست عوامی پذیرائی ملی، اور اُن کے جلسوں میں نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔
اگرچہ انتخابات کے نتائج متنازع اور دھاندلی زدہ سمجھے گئے، لیکن اُن کی مہم نے پاکستان کی سیاسی فضا کو ایک نئی روح بخشی۔ اُنہوں نے ثابت کیا کہ عورت بھی قیادت کر سکتی ہے، اور سچائی، دیانت اور اصولوں کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔
فاطمہ جناح ایک سماجی کارکن بھی تھیں۔ وہ خواتین اور بچوں کی تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ متحرک رہیں۔ اُنہوں نے قومی اتحاد، مساوات، انصاف اور تعلیمی ترقی پر زور دیا۔ اُن کی تقاریر میں عوام کے حقوق اور پاکستان کے بہتر مستقبل کی باتیں شامل ہوتیں۔
9 جولائی 1967 کو فاطمہ جناح انتقال کر گئیں۔ اُن کی وفات کے حالات پر کئی سوالات اٹھے، لیکن کوئی حتمی جواب سامنے نہ آ سکا۔ اُن کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے، جو اُنہیں مادرِ ملت کا درجہ دینے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اُن کی آخری آرام گاہ مزارِ قائد کے احاطے میں واقع ہے۔
آج بھی فاطمہ جناح کو پاکستان کی تاریخ کی ایک عظیم ترین خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کراچی میں اُن کی رہائش گاہ کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں لوگ اُن کی زندگی اور خدمات کے بارے میں جاننے آتے ہیں۔ ملک بھر میں کئی سڑکیں، اسکول، اسپتال اور ادارے اُن کے نام سے منسوب ہیں۔
31 جولائی کو اُن کی سالگرہ پر قوم اُن کے کردار، قربانیوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اُن کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچائی، اصول پسندی، اور قوم سے محبت ہی اصل قیادت ہے۔ انہوں نے خواتین کے لیے راہیں کھولیں، جمہوریت کا علم بلند کیا، اور ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہو گئیں۔
فاطمہ جناح کی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ آج بھی وہ ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ قوم کی خدمت دیانت، خلوص، اور استقامت کے ساتھ کی جائے۔ اُن کی یاد قوم کا قیمتی اثاثہ ہے، اور اُن کا کردار ہمیشہ پاکستان کی تاریخ میں روشن رہے گا۔
Leave a Reply