پیروں میں بیڑیاں سہی ذوق سفر تو ہے۔
دو دن کی زندگی ہے مگر معتبر تو ہے۔
کر دے گی شاد کام دل مضطرب کو یہ
باد صبا کے ہاتھ میں ساز ہنر تو ہے۔
زندگی ہزار روشیں بدلے شاعری لاکھ رنگ اپنا لے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شاعر اپنی شاعری میں سے محبت نکال پھینکے۔ یہ محبت کا ہی تو اعجاز ہے کہ شاعر کا دامن لفظوں سے آباد رہتا ہے اور اس کے ذہن و دل کی زمین کبھی بنجر نہیں ہوتی۔ کسی بھی شاعر کی ذات کی تشنگی اسے لکھنے پہ مجبور کرتی ہے اس کی روح کی طلب اسے سہارا دیے رکھتی ہے اور وہ تہی دامن نہیں ہوتا بلکہ اس کا دل کا آنگن پھولوں، تتلیوں، رنگوں اور چاند، ستاروں کے اجالوں سے بھرا رہتا ہے۔ ڈاکٹر پونم سے میری جب بھی ملاقات ہوئی تو وہ مجھے دھیمے مزاج اور شائستہ اطوار کی حامل شخصیت کے طور پر نظر آئیں جو کہ ان کے عمدہ اخلاق کا ثبوت ہے۔ اور یہ سب ان کی شاعری میں جگمگاتا نظر آتا ہے۔
روزی کمانے والے کیسے کیسے ڈوبتے ابھرتے حالات سے گزرتے ہوئے تنکا تنکا سجا کر اپنا آشیاں آباد رکھنے کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔ ڈاکٹر پونم جیسے کامیاب اور خود مختار لوگ جہاں اپنی ذات میں علم اور سخت محنت کا جہان سموئے ہوتے ہیں وہیں وہ اپنی روحانی تربیت بھی جاری رکھتے ہیں۔ اپنی سماجی، معاشی اور جذباتی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے انہیں اپنے اندر ایک ٹوٹتا، بکھرتا ہوا جہان سمیٹ کر رکھنے کا سلیقہ بھی آ جاتا ہے۔ اور جب انہیں کسی سے کچھ کہنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ اپنی ذات کی شکستگی اور چھپے کرب کے اظہار کے لیے قلم کا سہارا لیتے ہیں باقی کا کام ان کی جمالیاتی حس پورا کر دیتی ہے۔ دن بھر کی تھکن جب جسم سے روح میں منتقل ہوتی ہے تو شاعری کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے اپنی ہی ذات میں کوئی ہمزاد مل گیا ہو جس سے باتیں کرنے سے دل و دماغ ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پونم کا تعلق جس شعبے سے ہے وہاں انہیں دن رات حیات و موت کی کشمکش کے مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو یقیناً انہیں بہت سخت جان بنا چکا ہے اور وہ کڑوے کسیلے رویوں کو جھیلتی اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتی شاعری کشید کرتی رہتی ہیں۔ کسی کے زخموں کو سینا ان پہ مرہم رکھنا اور پھر ان کے مندمل ہونے کا انتظار کرنا ایک ماہر ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے کہ یہ سب کس قدر شاعرانہ ہے شاعر بھی ایک طرف اپنے زخموں کو اپنے ہی ہاتھوں سے سینے میں لگے رہتے ہیں تو دوسری طرف وہ اس مرحلے کے دوران جس اذیت اور تکلیف دہ مرحلے سے گزرتے ہیں وہ شاعری کہلاتا ہے۔ اور جب اپنے ہاتھوں سے لگائے گئے ٹانکوں کو ادھیڑنے کا وقت آتا ہے تو ان کے الفاظ دوسروں تک پہنچنے کے قابل ہو چکے ہوتے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر پونم کی شاعری میں یہ سارے مرحلے طے ہوتے دیکھے ہیں۔ ان کے اشعار ملاحظہ کیجئے۔
میں بھی تو اپنے شہر کی گلیوں کی ہو گئی
وہ بھی تو آج مجھ کو بھلانے پہ آ گیا۔
مہنگائی نے گھروں کو اجاڑا کچھ اس طرح
کہ بچہ بچہ گھر کا کمانے پہ آ گیا۔
میں نے تو تیرے گھر کو ستاروں سے بھر دیا
اور تو مرے چراغ بجھانے پہ آ گیا۔
گردش میں آ گئے تھے حالات جب مرے
مشکل کی اس گھڑی میں کوئی آسرا نہ تھا۔
ہر پل خیال آپ کا آتا رہا مجھے
شامل یوں زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا۔
محفل میں تیری آنے کو دل مانتا نہ تھا۔
لو آ گئے ہیں اشک بہانے کے بعد بھی۔
ہمیشہ سچ ہی چڑھا ہے سولی
مری وفا پہ سوال کیوں ہیں؟
یہ آنسوؤں کو خبر نہیں ہے
یہ ہاتھ کیوں ہیں رومال کیوں ہیں۔
وفا کے سنگ چلنے کا جنوں ہے
ہے سودا نقد پر مہنگا بہت ہے۔
تمہاری یاد کا آنچل سنہرا
حنا کے رنگ سے گہرا بہت ہے۔
کہاں حاجت رفو کی ہے بدن کو
دل ناداں کو اک ٹانکا بہت ہے۔
میری دعا ہے کہ ڈاکٹر پونم مزید اچھا لکھیں اور اردو ادب میں اپنا مقام بناتی چلی جائیں۔ آمین
خیر اندیش
منزہ سحر
Leave a Reply