( تحریر احسن انصاری)
محمد علی، جن کا اصل نام کیسیس مارسیلئیس کلے تھا، 17 جنوری 1942 کو لوئس ویل، کینیٹکی میں پیدا ہوئے۔ انہیں دنیا کے عظیم ترین باکسرز میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا کیریئر بیس سالوں پر محیط تھا، اور اس دوران انہوں نے نہ صرف باکسنگ بلکہ عالمی ثقافت پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ علی کی غیر معمولی مہارت، کرشمہ اور سماجی بیداری نے انہیں دنیا بھر میں مقبول کیا، اور انہیں “دی گریٹسٹ” (سب سے عظیم) کا لقب حاصل ہوا۔
محمد علی کا باکسر بننے کا سفر اُس وقت شروع ہوا جب وہ 12 سال کی عمر میں اپنا سائیکل چوری ہونے کے بعد باکسنگ کی ٹریننگ کرنے گئے۔ انہوں نے مقامی ٹرینر جو مارٹن کے ساتھ ٹریننگ شروع کی اور جلد ہی اپنی قدرتی صلاحیتوں سے خود کو نمایاں کیا۔ محمد علی نے 18 سال کی عمر میں 1960 کے روم اولمپکس میں لائٹ ہیوی ویٹ کیٹگری میں سونے کا تمغہ جیتا، جس کے بعد ان کی پروفیشنل باکسنگ کیرئیر کا آغاز ہوا۔ محمد علی کلے کی جرات مندانہ شخصیت اور منفرد انداز نے فوری طور پر توجہ حاصل کی۔ وہ اپنے تیز قدموں، غیر روایتی تکنیکوں اور “فلوٹ لائیک اے بٹر فلائی، اسٹنگ لائیک اے بی” (بھنور کی طرح اُڑنا، بی کی طرح کاٹنا) جیسی مشہور باتوں کے لیے مشہور تھے۔ وہ اپنے مخالفین کا مذاق اُڑاتے اور اپنے فتوحات کے بارے میں جرات مندانہ پیش گوئیاں کرتے، جس سے انہیں مداحوں اور حریفوں دونوں سے پذیرائی اور تنقید ملتی۔
محمد علی باکسر کی پہلی بڑی کامیابی فروری 1964 میں آئی جب انہوں نے دنیا کے ہیوی ویٹ چیمپئن سنی لسٹن کو شکست دی۔ 22 سال کی عمر میں، علی نے لسٹن کو ساتویں راؤنڈ میں تکنیکی ناک آؤٹ (TKO) سے ہرا کر ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتا۔ اس جیت کے بعد علی نے کہا، “میں سب سے عظیم ہوں!” اور اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام محمد علی رکھنے کا اعلان کیا۔ محمد علی نے مئی 1965 میں لسٹن کے ساتھ دوبارہ مقابلے میں، لسٹن نے پہلے راؤنڈ میں کندھے کی چوٹ کا بہانہ کیا اور شکست تسلیم کر لی، جو ایک متنازعہ معرکہ تھا۔ اس لڑائی نے “فینٹم پنچ” کے نام سے شہرت حاصل کی، جس میں محمد علی نے لسٹن کو پہلے راؤنڈ میں ایک دھچکا دیا۔ ایک اور مقابلہ میں جو 8 مارچ 1971 کو میڈیسن اسکوائر گارڈن میں علی کا جو فریزر کے ساتھ تاریخی مقابلہ ہوا، جسے “فائٹ آف دی سینچری” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فریزر نے محمد علی کو ایک متفقہ فیصلے سے ہرا دیا، اور یہ علی کی پہلی شکست تھی۔
محمد علی نے 30 اکتوبر 1974 کو کینشاسا، زیئر (موجودہ کانگو جمہوریہ) میں جارج فارمین کے خلاف لڑائی کی، جو اپنے طاقتور نکس سے مشہور تھا۔ دنیا کے بیشتر ماہرین نے علی کی شکست کا اندازہ لگایا تھا، لیکن علی نے اپنی منفرد “روپ اے ڈوپ” حکمت عملی استعمال کی، جس میں انہوں نے فارمین کو تھکنے دیا اور خود کو رسیوں کے ساتھ بچا کر اس کے حملوں کا جواب دیا۔ آٹھویں راؤنڈ میں علی نے فارمین کو ناک آؤٹ کر کے دوبارہ ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتا۔
محمد علی اور فریزر کا تیسرا اور آخری مقابلہ 1 اکتوبر 1975 کو منیلا، فلپائن میں ہوا۔ یہ لڑائی باکسنگ کی تاریخ کی سب سے شدید لڑائیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ 14 ویں راؤنڈ کے بعد، فریزر کے ٹرینر نے لڑائی روک دی اور علی کو تکنیکی ناک آؤٹ کے ذریعے فاتح قرار دیا۔ دونوں باکسر شدید زخمی ہوئے، اور علی نے بعد میں کہا کہ یہ اس کا مشکل ترین مقابلہ تھا، جس میں موت کو بہت قریب سے دیکھا۔ 1978 میں علی نے لیون اسپنکس سے اپنا ٹائٹل ہار دیا، تاہم، سات مہینوں بعد محمد علی نے اسپنکس کے ساتھ دوبارہ مقابلہ کیا اور ہیوی ویٹ ٹائٹل دوبارہ جیتا، اس طرح وہ تاریخ کے پہلے باکسر بنے جنہوں نے تین بار ہیوی ویٹ چیمپئن شپ جیتی۔ محمد علی نے تین مرتبہ باکسنگ سے ریٹائر ہونے کے باوجود ہر بار واپسی کی اور مزید کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی فتوحات صرف ان کی انفرادی صلاحیتوں کا اظہار نہیں تھیں، بلکہ ان کا اثر کھیل کے باہر بھی نمایاں تھا۔
محمد علی نے ویتنام جنگ میں فوجی خدمات سے انکار کیا، جس کی وجہ سے ان سے ہیوی ویٹ ٹائٹل چھین لیا گیا اور باکسنگ سے پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی۔ اس فیصلے نے انہیں عالمی سطح پر مزاحمت اور خود مختاری کی علامت بنا دیا۔ محمد علی نے اپنے موقف کی بنا پر نسل پرستی اور مذہبی آزادی کے بارے میں آواز بلند کی، اور ان کی شخصی جرات نے انہیں ہر طبقے کے لوگوں کا ہیرو بنا دیا۔ محمد علی کا کیریئر نہ صرف ان کی بے مثال فتوحات کا حامل تھا، بلکہ ان کی غیر معمولی عزم، حوصلے اور یقین کی عکاسی بھی کرتا تھا۔ 56 جیتوں، 5 شکستوں اور 37 ناک آؤٹس کے ساتھ، علی نے باکسنگ کی تاریخ میں اپنے آپ کو ایک عظیم کھلاڑی کے طور پر جگہ بنائی.
محمد علی باکسر نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ پہلا دورہ اُس وقت ہوا جب انہوں نے ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیتا تھا، اور لاہور میں ان کا زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ اس دورے میں عوامی تقاریب اور مداحوں سے ملاقاتیں شامل تھیں۔ دوسرا دورہ 1988 میں ہوا، جب انہیں پاکستان حکومت کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس دورے کے دوران، علی نے باکسنگ میں اپنی خدمات اور عالمی سطح پر امن و کھیل کی ترویج میں کردار کے اعتراف میں ایک تقریب میں شرکت کی۔ یہ دونوں دورے پاکستان میں بہت اہمیت کے حامل تھے۔
محمد علی 3 جون 2016 کو 74 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال ایریزونا کے اسکاٹڈیل ہسپتال میں ہوا، جہاں انہیں سانس کی تکالیف کے باعث داخل کیا گیا تھا۔ علی طویل عرصے سے پارکنسن کی بیماری کا شکار تھے، جس سے وہ 30 سال سے زیادہ عرصے تک لڑتے رہے۔ ان کی وفات نے باکسنگ کی دنیا کے لیے ایک عہد کا خاتمہ کیا، اور انہیں ایک عظیم کھیل کے کھلاڑی اور عالمی سطح پر انسان دوست شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محمد علی کا نام آج بھی زندہ ہے اور انہیں ہمیشہ ایک بہترین چیمپئن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، چاہے وہ رنگ میں ہوں یا زندگی کے دیگر میدانوں میں ہوں۔
Leave a Reply