rki.news
ناسازیء طبیعت کی وجہ سے تحریروں سے کافی حد تک ہاتھ کھینچا ہوا ہے۔ دس مئی کو ہونے والی بھارتی جارحیت اور پاکستان کے منہ توڑ جواب نے جذبہء قلم کو جنبش دی۔ میرا ضمیر مجھے بار بار ملامت کر رہا تھا۔ اگر میں نے اس وقت قلم کا حق ادا نہ کیا تو یہ قلم سے غداری ہو گی۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی بنائی ہوئی بہت بڑی آگ میں پھینکا جا رہا تھا، تو روایات کے مطابق ایک ننھا سا پرندہ اپنی چونچ میں پانی بھر کر لانے لگا اور آگ پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ کسی نے اس پرندے سے پوچھا کہ تمہارے اس معمولی پانی سے اتنی بڑی آگ کو بجھایا نہیں جا سکتا، تو اس نے جواب دیا:
“مجھے معلوم ہے کہ میں اس آگ کو بجھا نہیں سکتا، لیکن اللہ کے حضور میری کوشش لکھی جائے گی کہ میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ محبت اور خیرخواہی کا اظہار کیا”۔ میں شاید ہی جان و مال کا نذرانہ پیش کر سکوں۔ مگر قلم کے ذریعے وطن سے محبت اور خیرخواہی کا ثبوت دے سکتا ہوں۔ اور وطن محافظوں اور عوام کا حوصلہ بڑھا سکتا ہوں۔
1979ء سے شروع ہونے والی روسی جارحیت کے خلاف جب افغانستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ جہاں روس طاقت کے نشے اور اسلحے کے زور پر افغانستان پر بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہا تھا۔ وہاں روسی جاتے جاتے پاکستان کے سرحدی علاقے پر بھی دو چار بم پھینک جاتے۔ جس سے بےگناہ معصوم شہری ابدی نیند سو جاتے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور حکومت تھا۔ ہماری وزارت خارجہ کے پاس ماسوائے لفظی مذمت کے اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ اس مذمت کے پس پردہ کیا عسکری مصلحت تھی۔ اس کا علم تو عسکری اداروں کو ہی ہو گا۔ میں اس وقت زمانہء طالب علمی میں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب خبر کا سب سے بڑا ذریعہ اخبار، ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن تھا۔ ٹیلی ویژن پر جب بھی روسی جارحیت کی خبر چلتی دل خون کے آنسو روتا۔ چوراہوں، تھڑوں اور ہوٹلوں کے عوامی تبصرہ نگار طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے۔
پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کو اپنے اڑوس پڑوس سے سرحدی اور اندرون ملک جارحیت اور دہشتگردی کا سامنا رہا ہے۔ جن کے تانے بانے دور دراز کے ملکوں سے بھی ملتے رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی باہمی رنجش کی بنیاد اسی دن پڑ گئی تھی جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ یہ رنجش ابھی تک جاری و ساری ہے۔ بڑی جنگوں کے علاوہ بھارت پاکستان کی سرحدی جھڑپوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ بھارت پاکستان کی وہ سوتن ہے۔ جو نہ خود سکھی بسنا چاہتی ہے۔ نہ ہی بسنے دینا چاہتی ہے۔ سیالکوٹ، چھمب جوڑیاں، سری نگر یہ علاقے سوتن کی آنکھ کے کانٹے ہیں۔ ان گھروں “علاقوں” سے آئے دن برتن ٹوٹنے اور بجنے کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ اور بھارت ہر بار الزام پاکستانی سوتن کے سر تھونپ دیتا ہے۔ بھارت کے اندر دہشت گردی ہو جائے سرکار آنکھیں بند کر کے پاکستان میں کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ یہ شاید اسی لفظی مذمت کا خمیازہ ہے۔ جو اب تک ملک بھگتتا چلا آرہا ہے۔
آئیے اب کالم کے عنوان مذمت مزاحمت اور مرمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو جانوروں کی نفسیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ کتے کی سرشت میں بھونکنا اور حملہ کرنا پایا جاتا ہے۔ مگر گلی محلے اور بازاروں کے آوارہ کتے شاذونادر ہی ایسی جسارت کر پاتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں چلتی پھرتی عوام اور اپنی ہی برادری کے کتوں سے بار بار مزاحمت اور مرمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی کتا ذرا سا بھونکا کسی نے روڑا دے مارا۔ کسی نے ڈنڈے سے ٹھکائی کر دی۔ کسی قصائی نے کوئی چھیچڑا پھینکا۔ چھیچھڑا وہیں پڑا رہا۔ کتوں نے ہی ایک دوسرے کو ہی کاٹ ڈالا۔ ان محرکات کی بنا پر کتے کی کاٹنے اور بھونکنے والی سرشت ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کے برعکس گھر کا بندھا ہوا کتا اجنبیوں پر شیر کی طرح حملہ آور ہوتا ہے۔ بھونکتا اور گرجتا ایسے ہے جیسے اس سے بڑھ کر طاقتور اس دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ زنجیر توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیوں کہ اس نے کسی قسم کی بھی شدید مزاحمت یا ٹھکائی کا سامنا نہیں کیا ہوتا۔ بالکل ایسے ہی جنگل کا بادشاہ ببر شیر جسے طاقت کے بل بوتے پہ جنگل کا بادشاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جب بھی جنگلی سانڈھوں کے مزاحمتی اور مرمتی سینگوں کا سامنا ہوا۔ بادشاہ صاحب نے دم دبا کر بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔
اگر آپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو مذکورہ بالا مثال کے مطابق سرکش اور منہ زور طاقتوں کی مزاحمت، مرمت اور ٹھکائی انتہائی ضروری ہوتی ہے نہ کہ لفظی “مذمت” کی۔ دنیا نے دیکھا اس ٹھکائی اور مرمت کا نتیجہ چند گھنٹوں میں ہمارے سامنے آ گیا۔ بھارت نے نہ صرف ساری دنیا میں اپنی مظلومیت کا واویلا مچایا اور فائر بندی کا “اشٹام” اسٹیمپ پیپر ہاتھ میں لیے “تایا” امریکہ کے گھر جا پہنچا۔ اگر پاکستان کا رویہ شروع سے ہی جارحانہ رہتا تو شاید ہمیں آئے دن کی جھڑپوں سے کئی عشرے قبل ہی پناہ مل جاتی۔ بہرکیف دیر آید درست آید۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنی خوشی کیسے بیان کروں۔ جو معصوم بےگناہ نہتی انسانیت کا قاتل ہے۔ اس کی مرمت انتہائی ضروری ہے۔ ایک قلم کار امن و آشتی کا پیامبر ہوتا ہے۔ وہ ساری دنیا کو کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل انتہائی بھیانک چیز ہے۔ جنگ اندھی ہوتی ہے۔ یہ سفاک ہوتی ہے۔ سہاگ اجڑ جاتے ہیں۔ بھائی بہنوں سے، بہنیں بھائیوں سے، بچے ماں باپ سے، ماں باپ بچوں سے، عزیز و اقارب سے، دوست دوستوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ انسان اپاہج اور معذور ہو جاتے ہیں۔ جنگ فطرتی حسن کو کھا جاتی ہے۔ معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ نے جو ایٹم بم پھینکے تھے۔ اس کے تابکاری اثرات سے آج بھی وہاں عجیب شکل کے لوگ پیدا ہو رہے ہیں۔ فتح پر جشن منانا فطری امر ہے۔ ضرور منائیں مگر میں مسلم ممالک سے گزارش کروں گا کہ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، فلسطین کی تباہی سے سبق سیکھیں۔ پاکستان کی عسکری قوت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی عسکری قوت پر بھرپور توجہ دیں۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ زندہ رہنے کے لیے مضبوط عالم اسباب سے استفادہ حاصل کرنا ہو گا۔ تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھ لیں کمزور قوموں کے کیا انجام ہوئے ہیں۔ جن قوموں کی عسکری قوت اور معیشیت مضبوط ہوتی ہے۔ وہی سرپنچ ہوتے ہیں۔ وہی قوموں کے فیصلے کرتے ہیں۔ دنیا میں انہی کا سکہ چلتا ہے۔ میں آخر میں مسلم امہ کو ایک پیغام دینا چاہوں گا کہ “دوسروں کے قدموں میں بیٹھنے سے اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا بہتر ہے”۔
Leave a Reply