rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران ایک بار پھر تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ صدیوں سے طاقت، مذہب اور مزاحمت کی تہہ دار تاریخ رکھنے والا یہ ملک، آج ایک ایسے داخلی و خارجی دباؤ میں پڑا ہوا ہے جہاں اب معمولی لغزش بھی ایک عجیب طرح کا زلزلہ بن سکتی ہے۔ بظاہر حکومتی ڈھانچہ مضبوط دکھائی دیتا ہے، مگر اندر سے دراڑیں واضح ہونے لگی ہیں۔ ایرانی عوامی اضطراب، اقتصادی زبوں حالی، نسل نو کی بیداری اور بین الاقوامی دباؤ، سب مل کر ایک نئے عہد کی نوید دے رہے ہیں، یا کم از کم اس کی تمہید ضرور بن چکے ہیں۔
ایرانی عوام، جو برسوں سے مذہبی قیادت کے سخت گیر نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، اب مسلسل سوال اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ سوال صرف آزادی کا نہیں، بلکہ شناخت، تشخص، وقار اور زندگی کی قیمت کا ہے۔ “زن، زندگی، آزادی” جیسے نعروں نے نہ صرف گلی کوچوں کو گرمایا ہے بلکہ دنیا بھر میں ایرانی عوام کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے۔ ایرانی خواتین کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک اب نوجوان نسل کے لئے تحریکِ ضمیر بن چکی ہے، جو نظام کی جڑوں کو بھی ہلا رہی ہے۔
اقتصادی میدان میں صورتِ حال مزید گمبھیر ہے۔ مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری اور عالمی پابندیوں نے متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ اب نوبت یہ ہے کہ ڈاکٹروں، اساتذہ اور ڈرائیوروں تک نے احتجاج کی راہ اختیار کر لی ہے۔ جب روٹی بھی ایک نعمت بن جائے اور بجلی و پانی ایک سہارا نہیں بلکہ عذاب بن جائیں تو پھر انقلاب صرف نعرہ نہیں، وقت کی پکار بن جاتا ہے۔
حکومت، خاص طور پر سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت، اس وقت اندرونی کشمکش اور بیرونی دباؤ کی زد میں ہے۔ ان کے بعد قیادت کا سوال ایک حساس اور خطرناک مرحلہ بن چکا ہے۔ آیا یہ منصب ان کے بیٹے مجتبیٰ کو ملے گا یا کوئی اصلاح پسند شخصیت سامنے آئے گی، یہ سوال ایرانی نظام کے قلب تک کو چیر رہا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نئی نسل اب اندھیرے میں ہاتھ نہیں مار رہی؛ وہ شعور سے لیس ہے، وہ جانتی ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ صرف فتوے نہیں، عوامی تائید بھی ہوتا ہے۔
بیرونی دنیا، خصوصاً امریکہ اور اسرائیل، ایران میں ممکنہ تبدیلی کو اپنے انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ بعض مغربی حلقے کھلے عام ریجیم چینج کی بات کر رہے ہیں، اور اس پر خفیہ و اعلانیہ اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ خارجی دباؤ سے جنم لینے والی تبدیلیاں اکثر ناپائیدار اور خونریز ثابت ہوتی ہیں۔ ایران کی خاصیت یہی رہی ہے کہ اس کی زمین نے ہمیشہ اپنے فیصلے خود کیے ہیں۔ اگر واقعی تبدیلی آنی ہے، تو وہ تہران، مشہد اور اصفہان کی گلیوں سے ابھرے گی، نہ کہ کسی واشنگٹن یا تل ابیب کے دباؤ سے۔
آج ایران کے نوجوان، دانشور، شاعر، اور مزدور سب ایک جیسے سوال پوچھ رہے ہیں۔ وہ صرف رہبریت کے تسلسل پر بات نہیں کر رہے، بلکہ نظام کے فطری جواز کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ ایک فکری انقلاب کی ابتدا ہے، جو اگرچہ خاموش ہے، مگر بے حد گہری اور دور رس ثابت ہو سکتی ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ شاید ابھی بھی اقتدار کے خمار میں ہیں، مگر گلیوں میں لہراتے بینرز، دیواروں پر ابھرتے نعرے اور سوشل میڈیا کی دھڑکنیں بتا رہی ہیں کہ یہ ایران اب وہ پہلے والا ایران نہیں رہا۔
ایران کا مستقبل اب ایک نازک میزان پر ہے۔ ایک طرف مذہبی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اپنے اقتدار کی بقا کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، اور دوسری طرف وہ عوام ہیں جن کی خاموشی اب چیخ بن چکی ہے۔ اگر حالات یونہی رہے، تو آنے والے برسوں میں ایران محض سیاسی تبدیلی نہیں، بلکہ تہذیبی اور فکری انقلاب کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اور شاید تاریخ پھر سے گواہ بنے گی کہ جب قوموں کو خواب دکھانے والے خود خواب خرگوش میں ہوں، تو خواب حقیقت بن جایا کرتے ہیں۔
Leave a Reply