Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مزدوروں کی قدر کیجیے (یکم مئی یومِ مزدورپر خصوصی تحریر)

Articles , Snippets , / Wednesday, April 30th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو یومِ مزدور منایا جاتا ہے ۔ ایک ایسا دن جو محنت کش طبقے کی قربانیوں، جدوجہد، حقوق اور کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ یہ دن نہ صرف تاریخ کے اوراق میں محنت کشوں کی جدوجہد کا مظہر ہے بلکہ ایک سماجی و معاشی تحریک کی صورت میں ابھرا جس کا مقصد محنت کشوں کو عزت، وقار اور بہتر حالاتِ کار کی فراہمی تھا۔
یومِ مزدور کی بنیاد امریکہ کے شہر شکاگو میں 1886ء کی ہی مارکیٹ تحریک سے جُڑی ہوئی ہے۔ یکم مئی 1886ء کو ہزاروں مزدوروں نے اس مطالبے کے تحت ہڑتال کی کہ یومیہ کام کے اوقات آٹھ گھنٹے مقرر کیے جائیں ۔ یعنی آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے تفریح کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس پرامن احتجاج نے بعد ازاں پرتشدد شکل اختیار کرلی جب پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔ اس واقعے میں کئی افراد جاں بحق ہوئے اور متعدد مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔ یہی وہ سانحہ تھا جس نے مزدور تحریک کو ایک بین الاقوامی شکل دی۔
بین الاقوامی سطح پر یومِ مزدور کی بڑی اہمیت ہے۔ یکم مئی کو آج بین الاقوامی یومِ مزدور کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مگر اس کی تاریخ اور اہمیت مختلف ممالک میں مختلف رنگوں میں جھلکتی ہے۔ آسٹریلیا میں 1856ء سے آٹھ گھنٹے کے دن کا مطالبہ کرنے والے مزدور سب سے پہلے کامیاب ہوئے۔ کینیڈا میں 1872ء کی پرنٹرز کی ہڑتال نے مزدور تحریک کو قانونی حیثیت دلائی۔ بھارت میں یومِ مزدور کی پہلی باقاعدہ تقریب 1923ء میں مدراس میں منعقد ہوئی۔ جمیکا میں یہ دن نوآبادیاتی تسلط اور آزادی کے لیے محنت کشوں کی جدوجہد کا نشان ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ دہائیوں میں 2013ء کے رانا پلازہ حادثے کے بعد اس دن کو محنت کشوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی اجاگر کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ یومِ مزدور کے منانے کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کی یاد دہانی اور ان کے مقام و مرتبے کو اجاگر کرنا ہے، مگر آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں یہ دن محض ایک رسمی تعطیل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ جدید دور میں مزدور یونینز کی فعالیت اور اثرپذیری میں شدید کمی آئی ہے۔ نجکاری، فری لانسنگ، اور گگ اکانومی نے مزدوروں کو منتشر کر دیا ہے۔آج بھی لاکھوں مزدور دنیا بھر میں بغیر کسی تحفظ کے کام کر رہے ہیں، اور اجرتیں مہنگائی کے تناسب سے بہت پیچھے ہیں۔ بہت سے ممالک میں مزدور قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے، جبکہ کارپوریٹ مفادات کے لیے قانون سازی ترجیحی حیثیت رکھتی ہے۔تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث مزدور اپنے حقوق سے آگاہ نہیں جس سے ان کا استحصال مزید آسان ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی ہر سال یومِ مزدور منایا جاتا ہے، مگر یہ دن عموماً تقاریر، بینرز، اور میڈیا کوریج تک محدود رہتا ہے۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ محنت کشوں کی بڑی تعداد غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہے جہاں ان کے لیے کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں۔ لیبر قوانین کی موجودگی کے باوجود ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ مزدور یونینز سیاسی مفادات کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
یومِ مزدور کو صرف ایک تقریب یا تعطیل کے طور پر نہیں بلکہ ایک تحریک کے طور پر زندہ رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔ ریاست کو لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے۔ محنت کشوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تربیت، شعور اور معلومات فراہم کی جائیں۔ مزدور یونینز کو از سر نو فعال، شفاف اور آزادانہ بنیادوں پر منظم کیا جائے۔ تعلیمی نصاب میں محنت کشوں کی قدر و منزلت اور ان کی جدوجہد کو شامل کیا جائے۔
یومِ مزدور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معاشرتی ترقی کا حقیقی ستون محنت کش طبقہ ہے۔ اس لیے ہمیں مزدوں کی دل سے قدر کرنی چاہئیے۔ ان کی عزت، ان کے حقوق اور ان کی خوشحالی دراصل ایک منصفانہ، مساوات پر مبنی اور پائیدار معاشرے کی بنیاد ہے۔ جب تک ہم اس دن کو شعوری طور پر نہ منائیں اور محنت کشوں کی حقیقی مشکلات کا حل تلاش نہ کریں، تب تک یہ دن محض رسمی تعطیل ہی رہے گا ۔ ایک ایسی رسم جس کی روح کہیں کھو چکی ہو۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International