rki.news
از قلم :- وقاص علی وکاس
جب میں نے مطالعہ شروع نہیں کیا تھا، تو میری دنیا بہت محدود تھی۔ میری معلومات کا دائرہ صرف وہی تھا جو میں اپنے اردگرد دیکھتا یا لوگوں سے سنتا تھا۔ سوچنے کا انداز بھی سطحی تھا اور شاید ہی کبھی کسی گہرائی میں اتر پاتا تھا۔ کسی بھی موضوع پر میری رائے اکثر سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتی تھی، اور ان میں پختگی یا دلائل کی کمی تھی۔ میں اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کو صرف دیکھتا تھا، ان کے پیچھے چھپے اسباب یا ان کے ممکنہ نتائج پر غور و فکر نہیں کرتا تھا۔ گویا، میں ایک ایسے کنویں میں تھا جہاں سے باہر کی دنیا صرف اندازوں سے ہی دکھائی دیتی تھی۔
اس ذہنی محدودیت کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی تھا کہ میں فرقہ واریت کا شکار تھا۔ سنی ہونے کے ناطے، میں بغیر کسی تحقیق یا ٹھوس علم کے شیعہ برادری کے خلاف منفی رائے رکھتا تھا اور اکثر انہیں برا بھلا کہتا تھا۔ میری سوچ پر تنگ نظری اور تعصب کا گہرا سایہ تھا، اور میں اپنی اس فرقہ وارانہ ذہنیت کو درست سمجھتا تھا۔ یہ محض سنی سنائی باتوں پر مبنی نفرت تھی جس نے مجھے نہ صرف دوسروں سے دور کر دیا تھا بلکہ میرے اپنے اندر بھی ایک قسم کی کدورت پیدا کر دی تھی۔
پھر ایک دن، نہ جانے کیسے، کتابوں سے رشتہ جڑا۔ شاید یہ کسی دوست کی ترغیب تھی، یا کوئی اچانک پڑھی گئی سطر جو دل میں اتر گئی۔ آغاز میں تو یہ صرف وقت گزاری تھی، لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ میری عادت بنتا چلا گیا۔ اور پھر یہی عادت میری شخصیت میں ایک انقلاب لا رہی ہے۔
سب سے پہلی اور نمایاں تبدیلی میرے نقطہ نظر میں آئی ہے۔ جہاں پہلے میں چیزوں کو صرف ایک پہلو سے دیکھتا تھا، اب میں مختلف زاویوں سے سوچنا سیکھ گیا ہوں۔ کتابیں مجھے یہ سمجھاتی ہیں کہ ہر مسئلے کے کئی حل ہو سکتے ہیں اور ہر حقیقت کے کئی رخ۔ میری سوچ میں وسعت آ چکی ہے اور تنگ نظری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر، کتابیں مجھے یہ سکھاتی ہیں کہ کسی بھی بات یا گروہ کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے اس کی تہہ تک پہنچنا اور تحقیق کرنا کتنا ضروری ہے۔ میری آنکھوں پر سے تعصب کی پٹی ہٹ چکی ہے، اور مجھے یہ احساس ہو چکا ہے کہ ہمارے اختلافات کی جڑیں اکثر ناواقفیت اور غلط فہمیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ آج، صورتحال یہ ہے کہ میں سنی محفلوں میں شیعہ حضرات کا دفاع کرتا ہوں اور شیعہ حلقوں میں سنیوں کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہوں۔ اب میرا مذہب انسانیت اور رواداری ہے، اور میں تمام انسانوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
دوسری بڑی تبدیلی میری گفتگو میں محسوس ہوتی ہے۔ میرے پاس اب بات کرنے کے لیے صرف ذاتی مشاہدات نہیں، بلکہ میں تاریخ، فلسفے، سائنس اور ادب کے حوالوں سے بھی بات کرتا ہوں۔ میری گفتگو میں وزن اور اعتماد آ گیا ہے، اور میں دلیل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے کے قابل ہوں۔ لوگ بھی میری باتوں میں گہرائی محسوس کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، میری خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے، سمجھتا ہے، تو اس کے اندر ایک نئی قوت پیدا ہوتی ہے۔ میں اب کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں، غلطیوں کو تسلیم کرنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے اور سیکھنے کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے۔
مطالعے نے مجھے تنقیدی سوچ سکھائی ہے۔ اب میں ہر بات کو من و عن تسلیم نہیں کرتا، بلکہ سوال کرتا ہوں، تجزیہ کرتا ہوں اور حقائق کی چھان بین کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں زندگی کے ہر شعبے میں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہوں۔ چاہے وہ ذاتی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ، مطالعے کی بدولت میرا ذہن زیادہ فعال اور فیصلہ کن ہو گیا ہے۔
آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ مطالعہ صرف الفاظ پڑھنا نہیں، یہ ایک مکمل تجربہ ہے۔ یہ آپ کو ماضی سے جوڑتا ہے، حال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور مستقبل کے لیے ایک واضح راستہ دکھاتا ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس میں میری کتابوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کتابوں نے مجھے ایک بہتر انسان بنایا ہے، ایک بہتر سوچنے والا اور ایک ایسا شخص جو ہر دن کچھ نیا سیکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اگر آپ نے ابھی تک یہ سفر شروع نہیں کیا ہے، تو یقین جانیے، آپ کو اس سے بہتر کوئی ساتھی نہیں ملے گا۔
Leave a Reply