تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین !معاشرہ کی تعریف بڑی جامع اور وسیع ہے۔محقیقین اور ماہرین نے یہ بات تسلیم کی کہ معاشرہ افراد کے باہمی میل جول کا نام ہے۔عقل و شعور سے کام لینااور اخلاقی و معاشرتی اقدار کو فروغ دیناسماجیات میں شامل ہے گویا اجتماعی زندگی کی خوبصورتی کا نام ہی معاشرہ ہے۔معاشرے میں مختلف خاندانوں اور نسلوں کے لوگ رہتے ہیں اس خوبصورت سلسلے میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا ٬ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ٬دوسروں کا احساس اور حوصلہ و ہمت سے کام لینا ایسی خوبیاں ہیں جن سے حسن معاشرت کی رعناٸی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ سماجی اور معاشرتی شعور کے کرشمات میں سے ہے۔افراد معاشرہ کی سوچ اور فکر میں ہم آہنگی اور ہم خیالی پیدا ہونے سے رونق میں اضافہ ہوتا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلم انسانیت کی بعثت سے قبل معاشرتی ٬مذہبی٬اخلاقی ٬سماجی٬معاشی حالت خراب اور ابتر تھی۔عداوت٬دشمنی٬غیر اخلاقی برتاؤ٬اور قسم قسم کی براٸیاں پرورش پاتی تھیں۔دختر کشی جیسی رسم انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ تھی۔غرض معاشرے کی ابتری کا عالم قابل رحم تھا۔اس کیفیت پر اللہ کریم نے ترس کھایا۔مؤرخین اور مفکرین کے مطابق آپؐ کی پیدائش سے بعثت تک کا سفر زندگی انسانی توجہ کا مرکز رہا۔جب غار حرا کی تاریکیوں میں ”اقراء“کا پیام فرشتہ کے ذریعہ وحی الٰہی سے ملا تو عنایات کی برسات شروع ہوئی۔بقول شاعر
اتر کر حرا سے سوۓ قوم آیا
اوراک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے منفرد کیفیت دیکھ کر سماج دشمن عناصر پر گراں گزری اور آپؐ کی مخالفت پر اتر آۓ۔لیکن اللہ کا نظام دائمی اور ابدی ہونے کی وجہ سے کوئی کچھ نہ کر سکا۔اسلام کی تبیلغ کے دوران آپؐ اور پیروکاروں نے بے شمار صعوبتیں برداشت کیں اور ثابت قدم رہے۔بعثت نبوی کے بعد مکی اور مدنی زندگی کے حسن میں ایک خوبصورت جھلک نظر آتی ہے۔ایسا نظام انسانیتؐ کے لیے متعارف ہوا جس سے سماج اور معاشرہ میں بھی اصلاحات ہونے سے زندگی کا حسن دوبالا ہوا۔اخوت٬بھائی چارہ٬صداقت٬امانت ٬حقوق اللہ٬حقوق العباد ٬ایمانیات٬اعتقادات٬عبادات اور معاملات سے حیات انسانی میں تاریخ ساز انقلاب رونما ہوا۔گویا معلم انسانیتؐ آج بھی مشعل راہ ہے۔جس میں شعور بیداری اور سماجی ذمہ داریوں کا تاثر بہت نمایاں ہے۔یہ ہمارا ایمان بھی ہے کہ آپؐ کی زندگی تاقیامت آنے والے انسانوں کے لیے مثال ہے۔جو منشور انسانیت آپ نے انسانیت کے لیے پیش فرمایا اس کی روشنی میں سماجی اور معاشرتی زندگی میں حیران کن تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔اس وقت اصلاح معاشرہ کی ضرورت زیادہ ہے۔جدت پسندی کے ماحول میں اضافہ سے سماجی رویوں اور سماجی روابط میں عجب دوریاں جنم لے رہی ہیں۔انسانی زندگی اطمینان بخش اسی وقت ہوتی ہے جب انسانی رویوں میں جدت ہو۔اتحاد.اتفاق اور یگانگت پاٸی جاتی ہو۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رب کریم نے ہر چیز انسان کے لیے مسخر کر دی۔اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو سماج اور معاشرہ مں بہتری لانے کے لیے حقوق اور فرائض کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔اسلامی تعلیمات اور آئینہ سیرت النبیؐ میں آسانیاں موجود ہیں۔
تعلیم کا زیور تو انسان کی زندگی میں مفید شہری اور اچھا انسان بننے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مہاجریں اور انصار پر مشتمل نظام مواخات قائم فرمایا اور معاشرے کی ازسرنو تعمیر کا آغاز فرمایا۔ایک مہذب اور متمدن معاشرے کا تصور آپؐ نے پیش فرمایا اور انسانیت کی بہتری کے خوبصورت کارنامہ کیا۔انسا چونکہ حیوان ناطق ہے اس لیے رب کریم نے اسے عقل و شعور کی دولت سے نواز کر احسان عظیم فرمایا ہے۔ معلم انسانیتؐ کے درخشاں اصول اور نظریات سے قومی و ملی رویوں کی شمع بھی روشن ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا”بے شک میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں“اس کے مطابق سماج اور معاشرہ کی بہتری اور خوبصورتی کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
پتہ ۔۔گاؤں ڈِنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply