rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
معاشرتی نظام سے مراد وہ نظام ہے جس میں معاشرے کے تمام افراد کو بنیادی حقوق اور سہولیات میسر ہوتی ہیں ۔ہر قسم کے نسلی اور خاندانی تعصبات اور معاشرتی تفریق کے سب افراد مل جل کر رہتے ہیں۔عزت اور احترام سے زندگی بسر کرنے کے لیے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ایک جائزہ لیا جاۓ توتعلیم کی کمی اور اخلاقی زوال سے معاشرتی زندگی بوجھ بن کر رہ جاتی ہے۔معاشرتی زندگی میں تعلیم وتربیت اور قیام امن سے معاشرتی زندگی کو فروغ پانےکا موقع ملتا ہے۔افراد معاشرہ میں اعتماد کی بحالی اور مستقل مزاجی پیدا ہونے سے زندگی خوبصورت روپ اختیار کرتی ہے۔معاشرہ اور سماج کی ترقی کے لیے عظیم محنت اور جدوجہد سے انقلاب رونما ہوتا ہے جس سے افراد کے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا اور سکون کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔خوشحالی اور پر امن معاشرہ میں افراد باہمی اتفاق اور اتحاد سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ان کی سوچ اور فکر میں نمایاں تبدیلی سے عقائد اور اخلاقیات کے زاویے فروغ پاتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ افراد کے باہمی روابط اور باہمی تعلقات میں دیانتداری بہت اہم ہے۔خوشحالی کا خواب معاشرے میں اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوتا ہے جب ہر فرد باشعور ہو مثبت سوچ کا مالک ہو۔چھوٹے اور بڑے کی پہچان ہو۔انسانی زندگی کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار بھی تو انسانی رویوں پر ہے۔نظام زندگی میں توازن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سماجی اور معاشرتی اصولوں پر عمل کیا جاۓ۔خواتین کا احترم٬ان کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا اور حسن سلوک سے پیش آنا معاشرتی انصاف کی سب سے بڑی دلیل ہے۔مسائل کا بنیادی سبب غربت اور افلاس ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کائنات میں سبھی انسان خوبصورت ہیں۔خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔لیکن غربت اور افلاس کے اثرات سے ان کی زندگیاں اداسی اور پریشانی کی تصویر بن کر رہ جاتی ہیں۔اس لیے ہر فرد کو سماج اور معاشرے میں رہنے والوں کی خبر گیری کرنی چاہیے۔معاشرتی اور خاندانی تعصبات سے تو سماج کی دیواریں گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔جب کہ ہر فرد کا کردار تعمیر معاشرہ اور استحکام کے لیے اہم ہے۔بقول شاعر:-
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
معاشی مسائل سے سماج اور معاشرے زوال کا شکار ہوتے ہیں۔جس سے معاشرتی امتیاز جنم لیتا ہے۔معاشرتی مساوات تو خوبصورتی کی علامت ہے۔اس لیے معاشرے میں تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق تعلیم سے معاشرتی اور سماجی روایات کو فروغ ملتا ہے۔افراد میں شعور بیدار ہونے سے حقوق اور فرائض سے آگاہی ہوتی ہے۔تعلیم سے انسان روزی کمانے کے ذرائع تلاش کر پاتا ہے۔عزت اور احترام سے زندہ رہنا قانون اور آئین کی پاسداری ٬معاشرتی برائیوں سے دور رہنا اور سماج میں اصلاح کے لیے کام کرنا٬جیسے امور کی ادائیگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔تعلیم اور علم سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خاتمہ سے معاشرتی زندگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ ملک و ملت سے محبت اور اللہ کی مخلوق سے بہتر سلوک اور رویوں میں بھی بہتری پیدا ہوتی ہے۔تعلیم و تربیت سے افراد معاشرہ کا گفتاروکردار میں معیار بلند ہوتا اور انداز زندگی میں بہتری نمایاں ہوتی ہے۔حقیقت بھی تو یہی ہے کہ سوچ بدلنے سے زندگی بدلتی ہے۔تعلیم و تربیت سے تو ایمان٬اتحاد ٬تنظیم کا جذبہ قوی اور مضبوط ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے مشاہیر اسلام کی خدمات کا تذکرہ سنہری الفاظ کے ساتھ موجود ہے جن کی تمنا انسانیت کی خوشحالی تھی۔اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو سماج اور معاشرہ کی خوشحالی کے لیے قیام امن ضروری ہے۔صبر اور برداشت کے بہت سے فوائد ہیں۔گویا سماجی ترقی اور اور امن لازم و ملزوم ہے۔جب معاشرے میں اتفاق٬اتحاد٬بھائی چارہ اور امن کی فضا قائم ہوتی ہے تو خوشحالی دستک دیتی ہے۔ماہرین تعلیم کے نزدیک تو قیام امن اور تعلیم و تربیت سے معاشرتی خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔
Leave a Reply