rki.news
سب سے پہلے ایک بات سمجھنی ضروری ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات کا آپس میں گہرا اور دیرینہ تعلق ہے۔ان میں سے کوئی بھی نظر انداز ہوجائے تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
اگر کوئی انسان مفلوک الحال ہو اور اس کے پاس زندگی گزارنے کے ذرائع نہ ہوں تو اس سے اچھے اخلاق و کردار کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ مملکت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ ہر کسی کو روزگار، تعلیم اور صحت کے ذرائع فراہم کئے جائیں۔اس لئے ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کی جا سکیں اور ان بنیادی ضروریات کے بعد ان کے اخلاقی معیار بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک میں منصفانہ معاشی نظام نافذالعمل نہیں ہے۔ہمارا معاشی نظام ایڈم ا اسمتھ کا دیا ہوا ہےجس کا بنیادی اصول سرمایہ ہی سب کچھ ہے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی بنیاد ہی سرمائے کی پرستش ہےاور ہم اس سرمایہ دارانہ نظام سے غلط فہمی لگائے بیٹھے ہیں کہ معاشی حقوق اور ضروریات پوری کرے گا جو کہ سب سے بڑی غلطی ہے۔
“سورہ ھود 124۔۔جب اللہ تعالٰی نے تمام مخلوق کا رزق پیدا کر دیا ہے تو پھر مسئلہ اس کی تقسیم میں ہوا نہ کہ پیداوار میں”۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک عادلانہ معاشی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں جو کہ اسلام کے عادلانہ اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہو ،جس کی بہترین مثال ملائیشیا کا بہترین فلاحی معاشی نظام ہے۔
آئیے چلتے ہیں ملائیشیا کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ اتنے کم عرصے میں انہوں نے اتنی قابل قدر ترقی کیسے کی۔آج ملائیشیا ایشیا میں بہترین اقتصادی ریکارڈ رکھتا ہے جس کی جی ڈی پی کی شرح 6۔5 فیصد سالانہ ہے۔
ملائیشیا کی معاشی ترقی اور مستحکم نظام کے پیچھے ایک بڑی وجہ معیار تعلیم اور بہتر شرح خواندگی ہے اور ہمارے ملک کی بدنصیبی پستی اور جہالت ہےجس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی کوششیں بھی اس ضمن میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہےجن کی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جب تک ہم اپنی قوم کے افراد کو تعلیم سے بہرہ ور نہیں کریں گے تو اخلاقی طور پر انحطاط پذیر ہی رہیں گے۔ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے مثال لینے کی ضرورت ہےاور بحیثیت قوم تمام پڑھے لکھے افراد کی زمے داری ہے کہ غیر تعلیم یافتہ افراد کو تعلیم کی طرف راغب کریں اور اپنے وطن کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔
انفرادی زندگی کے ساتھ قومی اور اجتماعی زمے داریوں کو بھی نبھانے کی کوشش کریں چاہے اس ضمن میں کوئی ایک قدم اٹھائیں یا زیادہ۔
یہ ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے اور یہی بنیاد ہے ایک اچھے اور تعلیم یافتہ معاشرے کی تشکیل کی۔
جب ملک تعلیم کے میدان میں ترقی کرے گا تو معاشی صورتحال خود بخود بہتری کی جانب گامزن ہورہی جائیگی اور قوم سے اچھے اخلاق و اعمال کی زیادہ بہتر امید کی جا سکے گی۔
ملک میں ایمانداری اور عدل کو اعلی تعلیم سے ہی فروغ دیا جاسکتا ہے۔
اپنی نسل کی بہترین اخلاقی تربیت اعلی تعلیم و ہنر سے ہی ممکن ہےجس سے سماج میں خود بخود بہتری آنی شروع ہوجائیگی۔
اگر ہمارے پاس حقیقی معنوں میں تعلیم کو اہمیت دی جائے تو ملک معاشی طور پر ترقی کرے گا اور اس کے سماجی اثرات بھی مثبت ہونے شروع ہو جائیں گے۔
اور پاکستان عملا اقبال کا پاکستان بن جائے گا۔
اقبال نے اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعے جدید تعلیم کے فروغ پر ہی زور دیا ہے
بقول اقبال
” علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب، ”
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
Leave a Reply