rki.news
‘ تمہاری طرح’ سے تین ماخوذ اشعار*
تبصرہ نگار :
احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا
(1) شعر :
خدا رُسوا نہیں کرتا کسی کو
تمہیں جو چاہے، مانگو خدا سے
مہتاب سلم کے درج بالا شعر سے سورہ فاتحہ کے ترجمے( تیری ہی عبادت کرتے ییں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ایّا ک نعبُدُ و ایّا کنستعین) کو حافظے میں لایا جائے تو مذکورہ شعر ایمان کی تازگی اور خدا کی وحدانیت کے تعلق سے فقیدالمثال ہونے کے احساس کو تقویت عطا کرتا ہے۔ یہ شعر پروردگار کی وحدانیت کا علانیہ ہے۔ ‘ مانگنے کا شعور ‘ عطا کرنے والا یہ شعر یہ واضح کرتا ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ چیز کے لیے بھی واحد لم یزل سے ہی رجوع کرنا ایمان کی حفاظت اور اطاعتِ الٰہی کی وحدانیت و عظمت کو ابدیّت عطا کرتا ہے۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے طلبگارِ ضروریات ہونا شرک کے دہانے پر پہنچاتا ہے۔ یقیناٰ جب دِل اس قسم کے شرک سے پاک ہو کہ کسی پیر، فقیر کی بجائےخدا ہی پوری کائنات کا واحد اور اکیلا فریاد رس ہے تو ایسے فریادیوں کو اللہ کبھی مایوس بھی نہیں کرتا۔ اللہ مایوس اُن لوگوں کو کرتا ہے جن کے دِل کے کسی گوشے میں مالکِ لم یزل کے علاوہ بھی کسی غیر اللہ سے دامن ِامید پبھرنے کا یقین و ایمان ہو۔(نعو ذ باللہ)۔ مہتاب سلم نے اپنے اس شعر میں خدا کی وحدانیت کو انتہائی فنکارانہ، مدبّرانہ اور عاقلانہ طور پر پیش کرکے
‘ اِن سے، اُن سے’ حاجت روائی پر انکش لگانے کی سعئِ مشکور کی ہے۔
جو لوگ صرف اللہ سے امیدیں رکھتے ہیں ، اُن کو یہ شعر بہت پسند آیا ہوگا۔ اہلِ
‘ حامیان ِ وحدانیت’ کے لیے یہ شعر
نظر ِاستحسان کا سبب بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا ہی شعر پروردگار سے اپنی غیر مبتذل اور مبارکانہ شعر گوئی کے صلے میں عتابِ الٰہی سے شاعر کی گلو خلاصی کا سبب بنے گا۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سفر پر جا رہے تھے تو مقامِ عروج پر ایک شاعر سے حضور کا سامنا ہوا۔ وہ شاعر بڑی بے باکی سے( فحش شعر پڑھ رہا تھا) ۔رسولﷺ نے فرمایا ” خذ واا لشیطٰن” پکڑو اس شیطان کو( یعنی منع کرو اس کو ایسے اشعار پڑھنے سے) اور کہا (ترجمہ): البتّہ آدمی کا پیٹ اس کے لیے پیپ سے بھرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ بھرے ساتھ (ایسے گندے) شعر کپے ۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شعر سے متعلق تصریح کی ہے کہ ہمارے اسلامی شعراء کا کام لچریات، لغویات، فحاشی ، عریانیت، جھوٹ، منافقت اور مبالغہ آمیزی سے قطعاً پاک ہونا چاہیے۔ اسی طرح شرک اور بدعت کے میٙلے کی سنڈاس( Latrine) ۔
انتہائی مبارک سخن گستری کے لیے میں مہتاب سلم کو مبارکباد دوں گا اور دعائیں بھی۔
شعر نمبر (2) :
خدا کی زمیں پر کہیں بھی رہو
بُرے تم نہیں تو بُرا کچھ نہیں
اس شعر میں بھی شاعر مشہور تجربے کو سادگی اور عبرت کی نشانی بناتس ہے یعنی زیرِ نظر مثٙل کے مصداق:
* آپ بھلے تو جگ بھلا*
(انسان خود اچھا ہو تو دنیا اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی ہے)۔ سچ ہے دُنیا ہمارے پیچھے اُسی وقت پڑتی ہے جب ہم کسی کے پیچھے پڑتے ہیں۔
شعر 3:
آدمی کا کوئی قصور نہیں
بھوک بنیاد ہے گناہوں کی
یہ شعر بھی معنی کے اعتبار سے قابلِ اعتنا اور لائقِ ستائش ہے۔دنیا جانتی ہے کہ” بھوک ” سب سے بڑا مجرم ہے۔بیشتر جرائم بھوک سے منسوب ہیں۔ بھوک
بے کاری کے کرب اور اضطراب کا نام ہے۔ ہمارے ملک میں بےکاری لامتناہی اور لاعلاج مرض کی طرح سرایت کرچکی ہے۔۔ہماری روزانہ کی بھاگ دوڑ اسی بھوک کے سبب ہے۔ بےکاری بھوک کی تلافی نہ کرپانے کی صورت میں ارتکاب ِ جرم پر آمادہ کرتی ہے ۔ بھوک نہ ہو تو بےکاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بےکاری بھوک کی شدّت میں حِدّت پیدا کرتی ہے۔ اس تناظر میں مہتاب سلم کا یہ شعر معنویت اور ابدیت سے عبارت ہے۔
Leave a Reply